اسلام آباد (آئی آر کے نیوز): وفاقی حکومت نے اعلیٰ بیوروکریٹس کو مالی فوائد حاصل کرنے کی کھلی اجازت دے دی ہے، جبکہ اس کے ساتھ ہی سرکاری اداروں پر کفایت شعاری کے سخت اقدامات بھی برقرار رکھنے کا اعلان کیا گیا ہے۔
تفصیلات کے مطابق وزارت خزانہ کی جانب سے جاری کیے گئے ایک اعلامیے میں 10 جولائی 2014 کو جاری ہونے والے اس حکم کو ابتدائی طور پر واپس لے لیا گیا ہے جس کے تحت بیوروکریٹس کے لیے کارپوریٹ اداروں کے بورڈ اجلاسوں سے حاصل ہونے والی آمدن کی حد سالانہ 10 لاکھ روپے مقرر کی گئی تھی۔ اب یہ واضح کیا گیا ہے کہ یہ حکم نامہ گویا کبھی نافذ ہی نہیں تھا، جس کے بعد سرکاری افسران مالی سال 2024-25 کے دوران کسی بھی بورڈ اجلاس سے حاصل ہونے والی رقم کو اپنی قانونی آمدن قرار دے سکیں گے۔
یہ فیصلہ وفاقی کابینہ کی منظوری سے کیا گیا اور وزارت خزانہ نے اس پر باقاعدہ نوٹیفکیشن جاری کر دیا ہے۔ اس سے قبل 12 جون 2024 کو جاری حکم میں کہا گیا تھا کہ سرکاری ملازمین کو بورڈز سے زیادہ سے زیادہ دس لاکھ روپے سالانہ معاوضہ لینے کی اجازت ہوگی، اور اس سے زائد آمدن کو قومی خزانے میں جمع کرانا ضروری ہوگا۔ یہ پالیسی اسحاق ڈار کے دور میں نافذ کی گئی تھی تاکہ بیوروکریٹس کے اضافی مالی مفادات پر قابو پایا جا سکے، لیکن اب حکومت نے اسے واپس لے کر بیوروکریسی کے لیے آمدنی کے نئے دروازے کھول دیے ہیں۔
دوسری جانب وزارت خزانہ نے ایک اور اعلامیے میں کفایت شعاری کے اقدامات کو جاری رکھنے کا اعلان کیا ہے۔ ان اقدامات کا اطلاق وفاقی حکومت کے ماتحت تمام اداروں، سرکاری کاروباری اداروں (ایس او ایز) اور قانونی و ریگولیٹری اداروں پر بھی ہوگا۔ وزارت خزانہ نے واضح کیا ہے کہ سرکاری کاروباری ادارے ان ہدایات پر ایس او ایز ایکٹ 2023 کے تحت عملدرآمد کے پابند ہوں گے، جبکہ قانونی ادارے اپنے متعلقہ قوانین کے تحت ان پابندیوں کو نافذ کریں گے۔
کفایت شعاری کے ان اقدامات میں گاڑیوں کی خریداری پر مکمل پابندی عائد ہے۔ اس کے علاوہ حکومت نے نئے سرکاری عہدوں کی تخلیق، بیرون ملک علاج اور غیر ضروری غیر ملکی دوروں پر بھی پابندی برقرار رکھی ہے۔ اس دوران وزارت خزانہ نے ایک اور اہم فیصلہ کرتے ہوئے تمام سول اور عسکری پنشنرز کی خالص پنشن میں سات فیصد اضافے کا اعلان بھی کیا ہے۔ اس میں وہ افراد شامل ہیں جو دفاعی بجٹ سے تنخواہ پاتے تھے یا مسلح افواج اور سول آرمڈ فورسز سے ریٹائر ہوئے ہیں۔
ان اقدامات پر مبصرین کا کہنا ہے کہ حکومت ایک جانب بیوروکریسی کو کھلے مالی فوائد کی اجازت دے رہی ہے اور دوسری جانب سرکاری اداروں کو کفایت شعاری کی کڑی ہدایات جاری کر رہی ہے، جو دوہرے معیار کی عکاسی کرتا ہے۔