ڈی جی آئی ایس پی آر کی اہم پریس کانفرنس

 — فوٹو: ڈان نیوز

پشاور (آئی آر کے نیوز): پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری نے کہا ہے کہ خیبرپختونخوا میں سوچے سمجھے منصوبے کے تحت دہشت گردوں اور ان کے سہولت کاروں کو جگہ دی گئی، یہاں گورننس اور عوامی فلاح و بہبود کو جان بوجھ کر کمزور کیا گیا، جس کا خمیازہ آج تک خیبرپختونخوا کے بہادر اور غیور عوام اپنے خون سے بھگت رہے ہیں، سندھ اور پنجاب میں گورننس قائم ہونے کی وجہ سے دہشت گردی نہیں۔

ترجمان پاک فوج لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری کور ہیڈ کوارٹرز پشاور میں اہم پریس کانفرنس سے خطاب کررہے ہیں، انہوں نے کہا کہ پریس کانفرنس کا مقصد صوبہ خیبرپختونخوا میں سیکیورٹی صورتحال کا جائزہ لینا ہے۔

لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری نے پریس کانفرنس کے آغاز میں خیبرپختونخوا کے غیور عوام کی دہشت گردی کے خلاف جنگ میں قربانیوں کو خراج عقیدت پیش کیا۔

انہوں نے کہاکہ ہم سب نے خیبرپختونخوا کے غیور عوام کے ساتھ مل کر دہشت گردی کے ناسور کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنا ہے۔

ڈی جی آئی ایس پی آر نے کا افواج پاکستان کے تجدید عزم کیلئے آیا ہوں، دہشت گردی کو جڑ سے اکھاڑ پھینکے کے عزم کی تجدید کرتےہیں۔

انہوں نے صوبے میں انسداد دہشت گردی آپریشن کا جائزہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ خیبرپختونخوامیں2024کے بعد خفیہ اطلاعات پر 14ہزار 535 آپریشنز کیے، یومیہ بنیاد پر کیے گئے انٹیلی جنس بیسڈ آپریشنز کی تعداد 40 بنتی ہے۔

انہوں نے کہاکہ 2024 میں آپریشن کے دوران 769 دہشت گردوں کو جہنم واصل کیا گیا، جن کی یومیہ تعداد 2.1 بنتی ہے، ان آپریشنز کے دوران 577 قیمتی جانوں نے جام شہادت نوش کیا جن میں پاک فوج کے 272 بہادر افسران اور جوان، پولیس کے 140 جبکہ 165 معصوم پاکستانی شہری شامل ہیں۔

 

رواں سال خیبرپختونخوا میں 10 ہزار 115 آپریشن کیے جاچکے

ڈی جی آئی ایس پی آر نے بتایا کہ خیبرپختونخوا میں 2025 کے دوران 15 ستمبر تک 10 ہزار 115 انٹیلی جنس بیسڈ آپریشن کیے جاچکے ہیں جن کی یومیہ تعداد 40 بنتی ہے جن میں 917 دہشت گردوں کو جہنم واصل کیا جاچکا ہے، جن یومیہ شرح 3.5 بنتی ہے۔

انہوں نے بتایا کہ رواں سال خیبرپختونخوا میں آپریشنز کے دوران 516 قیمتی جانوں نے جام شہادت نوش کیا جس میں پاک فوج کے 311 افسران و جوانان، پولیس کے 73 اہلکار اور 132 معصوم شہری شامل ہیں۔

انہوں نے کہا کہ گزشتہ 10 سالوں میں آپریشن کےدوران واصل جہنم واصل ہونے والے خارجیوں کی تعداد کا موازنہ کیا جائے تو ایک سال میں مارے گئے خارجیوں کی تعداد گزشتہ 10 سالوں میں مارے گئے خارجیوں کے مقابلے میں سب سے زیادہ ہے، اسی طرح گزشتہ سال مارے گئے خارجیوں کی تعداد اس سے گزشتہ 9 سالوں کی مجموعی تعداد سے زیادہ تھی۔

لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری نے کہا کہ 2016 سانحہ آرمی پبلک اسکول کے بعد انٹیلی جنس ایجنسیوں اور قانون نافذ کرنے والے اداروں نے دہشت گردی کو جڑ سے اکھاڑنا شروع کیا اور ایک پر امن خیبرپختونخوا کے خواب کی تکمیل کے قریب پہنچ گئے۔

انہوں نے کہا کہ مگر بدقسمتی سے خیبرپختونخوا میں سوچے سمجھے منصوبے کے تحت دہشت گردوں اور ان کے سہولت کاروں کو اسپیس دی گئی، یہاں گورننس اور عوامی فلاح و بہبود کو جان بوجھ کر کمزور کیا گیا، جس کا خمیازہ آج تک خیبرپختونخوا کے بہادر اور غیور عوام اپنے خون اور اپنی قربانیوں کے ذریعے بھگت رہے ہیں۔

 

دہشت گردی ختم نہ ہونے کی 5 وجوہات

ترجمان پاک فوج نے کہا کہ ان عوامل کو جاننا ضروری ہے جن کی وجہ سے آج دہشت گردی موجود ہے، انہوں نے دہشت گردی ختم نہ ہونے کی 5 بنیادی وجوہات بھی بیان کیں۔ 

 

نیشنل ایکشن پلان پر عمل نہ کرنا۔

دہشت گردی کے معاملے پر سیاست کرنا اور قوم کو اس سیاست میں الجھانا۔

بھارت کا افغانستان کو دہشت گردی کے بیس کیمپ کے طور پر استعمال کرنا۔

افغانستان میں دہشت گردوں کو جدید ہتھیاروں اور پناہ گاہوں کی دستیابی۔

مقامی اور سیاسی پشت پناہی کا حامل دہشت گردوں اور جرائم پیشہ عناصر کا گٹھ جوڑ۔

 

انہوں نے کہا کہ صرف 2024 اور 2025 میں پاکستان جہنم واصل کیے جانے والے افغانیوں کی تعداد 161 بنتی ہے، اس کے علاوہ افغانستان کی سرحد سے دخل اندازی کرتے ہوئے 135 خارجی مارے گئے جبکہ 2 سال میں خود کش حملے کرنے والے 30 حملہ آور میں افغان شہری تھے، یہ اعداد و شمار افغانستان کو بھارت کے دہشت گردی کے بیس کیمپ کے طور پر عیاں کرتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ دہشت گردوں اور جرائم پیشہ عناصر کے گٹھ جوڑ مکمل مقامی اور سیاسی پشت پناہی حاصل ہے۔

ترجمان پاک فوج نے مزید کہا کہ 2014 میں سانحہ اے پی ایس کے بعد تمام سیاسی جماعتیں، وفاقی اور صوبائی حکومتیں پشاور میں بیٹھیں اور ایک متفقہ لائحہ عمل تیار کیا جسے نیشنل ایکشن پلان کا نام دیا گیا اور تمام سیاسی جماعتوں نے اتفاق کیا کہ اگر دہشت گردی کو جڑ سے اکھاڑنا ہے تو ان نکات پر کام کرنا ہے۔

انہوں نے بتایا کہ 2021 میں پچھلی صوبائی حکومت نے جن نکات پر کام ہوچکا تھا انہیں خارج کرکے 14 نکات پر مشتمل نظرثانی شدہ نیشنل ایکشن پلان ترتیب دیا اور تمام سیاسی عمائدین ، تمام سیاسی جماعتوں اور اس وقت کی صوبائی اور وفاقی حکومتوں نے فیصلہ کیا کہ اگر دہشتگردی کو جڑ سے اکھاڑنا ہے تو ان 14 نکات پر کام کرنا ہے۔

انہوں نے کہا کہ موجودہ حکومت نے بھی اسی ایکشن پلان کو وژن عزم استحکام کا نام دیا، انہوں نے کہا کہ دہشت گردی کی اولین وجہ یہ ہے کہ ان نکات پر عمل نہیں ہورہا۔

انہوں نے کہاکہ ایکشن پلان کا پہلا نکتہ یہ ہے کہ دہشت گردوں کو مارنا ہے، صرف یہی ایک نکتہ زمینی کارروائیوں سے تعلق رکھتا ہے، کیا اس پر کام ہورہا ہے کہ نہیں ہورہا، صرف خیبرپختونخو امیں سیکیورٹی ایجنسیاں یومیہ 40 سے زیادہ انٹیلی جنس بیسڈ آپریشن کررہی ہیں کہ نہیں کررہیں، اس سال ہم نے 900 سے زیادہ دہشت گردوں کو کیفر کردار تک نہیں پہنچایا؟ کیا ہمارے شہدا اس بات کی گواہی نہیں دے رہے کہ پہلے نکتے پر کام ہور ہا ہے اور بالکل ہورہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ باقی 13 نکات کا بھی احاطہ کرلیا جائے کہ ان پر کیا کام ہورہا ہے، انہوں نے کہاکہ دوسرا نکتہ تھا کہ میڈیا، سوشل میڈیا اور سیاستدان یک زبان ہوکر دہشت گردی کے خلاف کھڑے ہوں گے، یہ ہم نے نہیں کہا، تمام سیاسی عمائدین اور سیاسی جماعتیں 2014 سے اس بات پر متفق ہیں، کیا ہم اس بیانیے پر کھڑے ہیں؟

ترجمان پاک فوج نے سوال کیا کہ کیا آپ کو یہ آواز نہیں آتی کہ دہشت گردوں سے مذاکرات کرلیے جائیں، کیا ہم اس نیشنل ایکشن پلان پر عمل کررہے ہیں؟ کیا ہر مسئلے کا حل بات چیت ہے ؟ اگر حل مسئلے کا حل بات چیت میں ہے تو جب 6 اور 7 مئی کو بھارت نے پاکستان پر میزائل مارے، معصوم بچوں، خواتین، مدرسوں اور مساجد کو شہید کیا تو اس ملک کے عوام نے یہ کیوں نہیں کہا کہ اگلے دن بات چیت کرلیتے ہیں؟

 

ہر مسئلے کا حل بات چیت میں ہوتا تو کوئی غزوہ ہوتی؟

انہوں نے کہا کہ اگر ہر مسئلے کا حل بات چیت میں ہوتا تو کوئی غزوہ ہوتی، نہ جنگیں ہوتیں اور نہ مہمات ہوتیں، اگر مسئلے کا حل بات چیت میں ہوتا تو بدر کے میدان کو یاد کریں کہ سرور کونینؐ جن کے لیے دو جہان بنائے گئے، وہ ذات جس سے بڑھ کر کوئی انسان نہیں، انہوںؐ نے اس دن کیوں بات چیت نہیں کرلی؟ ادھر تو باپ کے بیٹا، بھائی کے آگے بھائی، قریشی کے آگے قریشی اور اموی کے آگے اموی کھڑا تھا، کیوں نہیں بات چیت کرلی؟

لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری نے کہاکہ آپ کے عمائدین نے فیصلہ کیا تھا کہ ہم بیانیہ بنائیں گے مگر گمراہ کن بیانیہ بنایا جاتا ہے۔

انہوں نے کہاکہ ہم نے نہیں ہمارے سیاستدانوں، تمام صوبائی حکومتوں نے کہا کہ اگر دہشت گردی کو ختم کرنا ہے دہشت گردی اور جرائم کے گٹھ جوڑ کو توڑنا ہے، غیرقانونی کاروباروں، منشیات، بھتہ خوری، اغوا برائے تاوان اور نان کسٹم پیڈ گاڑیوں کے ناسور سے اپنے خطے کو پاک کرنا ہے۔

جرائم کے ناسوروں کو بچانے کیلئے سیاسی آوازیں آتی ہیں

انہوں نے کہاکہ جب قانون نافذ کرنے والے ادارے ان ناسوروں کے خلاف کارروائی کرتے ہیں، تو ان عناصر کی پشت پناہی کے لیے مختلف سیاسی اور مقامی سطح سے آوازیں آتی ہیں، فیصلہ تو آپ نے کیا تھا کہ اس کو ختم کیے بغیر دہشت گردی ختم نہیں ہوسکتی۔

ترجمان پاک فوج نے کہا کہ اس ملک کے سیاستدانوں اور سیاسی حکومتوں نے فیصلہ کیا کہ دہشت گردی کے مقدمات کے لیے اپنے عدالتی نظام کو مضبوط کرنا ہے لیکن ابھی ہم کہاں کھڑے ہیں کہ اگست 2025 میں خیبرپختونخوا کی انسداد دہشت گردی عدالتوں سے کسی دہشت گرد کو سزا نہیں ہوئی، 34 مقدمات زیر التو ہیں، 2878 زیرالتوا مقدمات 3 سال سے کم عرصے جبکہ 1706 مقدمات کو 3 سال سے زیادہ عرصہ ہوچکا ہے۔

دہشت گردی اور غیرقانونی کاروبار کے گٹھ جوڑ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ دہشت گردی کے پیشے غیرقانونی کاروبار کا گٹھ جوڑ ہے، منشیات کے 10 ہزار 87 کیسز میں سے صرف 679 مجرموں کو سزا ہوئی جبکہ غیرقانونی ہتھیاروں کے 33 ہزار 389 مقدمات میں صرف 6 ہزار 945 مجرموں کو سزا ہوئی، انہوں نے کہاکہ دہشت گردی کے خلاف عدالتی مہم کی یہ صورتحال ہے۔

سی ٹی ڈی خیبرپختونخوا میں صرف 3200 اہلکار ہیں

لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری نے مزید کہا کہ 2014 اور 2021 میں یہ فیصلہ کیا گیا کہ صوبے میں دہشت گردی کو ختم کرنا ہے تو محکمہ انسداد دہشت گردی (سی ٹی ڈی) کو مضبوط کرنا ہے مگر اس وقت سی ٹی ڈی خیبرپختونخوا کی آپریشنل صلاحیت 3200 ہے، دہشت گردی آپ کے سامنے ہے،کیا یہ تعداد کافی ہے؟

انہوں نے کہا کہ ہم خیبرپختونخوا کی بہادر پولیس اور سی ٹی ڈی کو سلام پیش کرتے ہیں، مگر اس کی تعداد صرف 3200ہے۔

ترجمان پاک فوج نے کہ نیشنل ایکشن پلان میں مدارس کے اندراج کا فیصلہ ہوا تھا مگر ہم اب تک صوبے میں 4 ہزار 355 تقریباً 55 فیصد مدارس کا آج تک اندراج ہوسکا ہے، ابھی اندراج ہی مکمل نہیں ہوسکا تو نصاب ایک کرنا اور اس کے اوپر نگرانی کرنا تو الگ بات ہے۔

انہوں نے کہا اگر سوال یہ ہے کہ دہشت گردی ختم کیوں نہیں ہورہی تو ان سوالات کا جواب بھی دیں۔

ترجمان پاک فوج نے کہا کہ 2014 اور پھر 2021 میں بھی یہ فیصلہ کیا گیا کہ افغانوں کو واپس بھیجنا ہے، تو آج یہ بیانیہ کہاں سے آگیا کہ ان کو واپس نہیں بھیجنا، انہوں نے سوال اٹھایا کہ کیا آپ 2014 اور 2021 میں غلط تھے، اور جب افغانستان میں امن آچکا ہے اور وہاں کوئی قابض افوج نہیں ہے، تو کئی دہائیوں تک افغان بھائی کی مہمان نوازی کرنے والی ریاست انہیں واپس جانے کا کہتی ہے تو اس پر سیاست کی جاتی ہے، اس پر بیانیے بنائے جاتے ہیں اور گمراہ کن باتیں کی جاتی ہیں۔

ترجمان پاک فوج نے کہا کہ دوحہ معاہدے پر میں کہا گیا کہ افغان سرزمین نہ صرف امریکا بلکہ خطے میں بھی کسی کے خلاف استعمال نہیں ہوگی، مگر آپ کےسامنے اعداد و شمار رکھے ہیں کہ کتنے افغان تشکیلات میں آتے ہیں، کتنے ہم نے ختم کیے اور کتنے افغان خودکش حملوں میں شامل ہیں، تو پھر کیسے افغان سرزمین خوارج اور دہشت گردوں کے لیے بیس کیمپ کے طور پر استعمال ہورہی ہے؟

انہوں نے کہاکہ امریکا افغانستان سے گیا تو اس کا چھوڑا ہوا اسلحہ بڑی تعداد میں خوارج کے پاس گیا، امریکا کی اپنی سگار کی 2024 کی رپورٹ کہتی ہے کہ امریکی فوج 7.2 ارب ڈالر مالیت کے ہتھیار افغانستان چھوڑ کر گئی۔

ترجمان پاک فوج نے خیبرپختونخوا میں آپریشنز کے دوران مارے گئے خارجیوں سے برآمد امریکی ہتھیاروں کی تصاویر بھی دکھائیں۔

پنجاب اور سندھ میں دہشتگردی کیوں نہیں ہوتی؟

انہوں نے کہا کہ پچھلے 3 ماہ میں دہشت گردی کے 3 ہزار 984 واقعات پیش آئے، ان میں سے 70 فیصد خیبرپختونخوا میں کیوں پیش آئے؟ یہ بڑا منطقی سوال ہے، جو نوجوان اور سوشل میڈیا بھی کرتا ہے، دہشت گردی کے یہ واقعات پنجاب اور سندھ میں کیوں نظر نہیں آتے؟

انہوں نے کہا کہ سندھ اور پنجاب میں دہشت گردی نہ ہونے کی بنیادی وجہ یہ نہیں کہ دہشت گرد ان صوبوں میں کام نہیں کرنا چاہتے اور اپنے نظریات کی وہاں ترویج نہیں چاہتے، نہیں اسکی قطعی یہ وجہ نہیں ہے۔

انہوں نے کہا کہ اس کی وجہ یہ ہے کہ ان صوبوں میں گورننس قائم ہے، وہاں کی پولیس اور قانون نافذ کرنے والے ادارے قائم ہیں اور وہاں پر سیاست اور دہشت گردی کا گٹھ جوڑ کام نہیں کررہا، صرف یہی وجہ ہے جبکہ ہمارے اس عظیم صوبے میں بجائے اس کے کہ دہشت گردی کو کارکردگی،گورننس اور قانون کی عملداری سے ختم کیا جائے، اسے صوبائیت کا رنگ دیاجارہا ہے اور پر سیاست کی جارہی ہے۔

انہوں نے سوال کیا کہ کیا یہ بذات خود ایک مجرمانہ عمل نہیں ہے؟ کہ گورننس، کارکردگی، صلاحیت اور استعداد کار اور سی ٹی ڈی کو بڑھانے اور عدالتی نظام کو مضبوط بنانے اور غیرقانونی مقیم افغانوں کو واپس افغانستان بھیجنے کے بجائے ایک کنفیوژن اور ابہام پیدا کیا جائے۔

انہوں نے کہا کہ انہی وجوہات کی بنیاد پر آرمی چیف واضح طور پر کہہ چکے ہیں، گورننس کے خلا کو پاک فوج کے افسران، جوان، پولیس کے افسر اور جوان، بچے اور ہمارے ادارے اپنے خون سے پُر کررہے ہیں، حکومتی خلا کو پاکستان اور خیبرپختونخوا کے عوام روزانہ اپنے خون سے پُر کررہے ہیں۔

ترجمان پاک فوج نے سوال کیا کہ اگر گورننس کے خلا کو پُر نہیں کرنا اور متفقہ نیشنل ایکشن پلان پر عمل نہیں کرنا تو پھر خیبرپختونخوا کو دہشت گردی کے ناسور سے کیسے چھٹکارا ملے گا؟

لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری نے واضح کیا کہ ریاست پاکستان کے انسداد دہشت گردی آپریشنز کے حوالے سے جو جھوٹا، فرضی اور من گھڑت بیانیہ بنایا جارہا ہے اور شہدا اور افواج پاکستان اور پولیس کی قربانیوں کی جو تضحیک کی جاتی ہے، یہ سیاسی اور مجرمانہ گٹھ جوڑ کے مزموم عزائم کی عکاسی کرتی ہے، خیبرپختونخوا میں دہشت گردی کے پیچے یہی سیاسی و مجرمانہ گٹھ جوڑ ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہم واضح کرنا چاہتے ہیں کہ پاکستانی عوام کی سیکیورٹی کسی دوسرے ملک ،بالخصوص افغانستان کو رہن نہیں کی جاسکتی، صرف ریاست، افواج پاکستان اور اس کے قانون نافذ کرنے والے ادارے ہی پاکستان کے عوام کی سلامتی کے ضامن ہیں۔

 پاکستان کو فرد واحد کی سیاست کی بھینٹ نہیں چڑھایا جاسکتا

ترجمان پاک فوج نے واضح کیا کہ پاکستان کی فوج اور اس کے اداروں کو کسی سیاسی شعبدہ بازی سے پریشان نہیں کیا جاسکتا، ریاست پاکستان اور اس کے عوام کو کسی فرد واحد کی خواہش کی بھینٹ نہیں چڑھایا جاسکتا، وہ فرد کو تن تنہا انتہائی غیر ذمہ داری سے دہشت گردی کو پاکستان اور بالخصوص خیبرپختونخوا میں واپس لایا۔

انہوں نے کہا کہ کسی فرد واحد کو یہ اجازت نہیں دی جاسکتی کہ وہ اپنی ذات اور اپنے مفاد کے لیے پاکستان اور خیبرپختونخوا کے غیور اور باعزت عوام کے جان، مال اور عزت آبرو کا سودا کرے، انہوں نے کہا کہ افواج پاکستان آئین اور قانون کے مطابق خیبرپختونخوا میں داخلی سلامتی کے فرائض انجام دے رہی ہیں، جس کی بنیادی ذمہ داری صوبائی اور مقامی انتظامیہ کی ہے، ہم امید کرتے ہیں کہ بجائے منفی سیاست، الزام تراشی اور خارجہ جرائم پیشہ مافیا کی سہولت کاری کے بجائے آپ اپنی اس بنیادی ذمہ داری پر توجہ دیں گے۔

انہوں نے کہا کہ ہم یہ بھی امید کرتے ہیں کہ آپ خیبرپختنخوا کے غیور عوام کی حفاظت کے لیے افغانستان سے سیکیورٹی کی بھیک مانگنے کے بجائے اس صوبے کے ذمہ داران ہوتے ہوئے خود اس کی حفاظت کریں گے جو نہ صرف خیبرپختونخوا کے عوام کا حق ہے بلکہ آپ کا فرض ہے۔

ترجمان نے کہا کہ افواج پاکستان یہ بات بھی واضح کرنا چاہتی ہیں کہ خارجی دہشت گرد اور ان کے سہولت کار چاہے وہ کوئی بھی ہو اور کسی بھی عہدے پر ہو، اس کے لیے زمین تنگ کردی جائے گی کیونکہ پاکستانی قوم سیسہ پلائی دیوار ’بنیان مرصوص‘ کی طرح دہشت گردوں اور ان کے سہولت کاروں کے خلاف کھڑی ہے اور انشااللہ کھڑی رہے گی، اور ہمارے شہدا کا خون کبھی رائیگاں نہیں جائے گا۔

اب اسٹیٹس کو نہیں چلے گا، صرف 3 راستے ہیں

لیفٹیننٹ جنرل احمدشریف چوہدری نے کہا کہ ہم یہ بھی واضح کرنا چاہتے ہیں کہ اب اسٹیٹس کو نہیں چلے گا، جو شخص یا گروہ اپنی مجبوری یا کسی فائدے کی وجہ سے خارجیوں کی سہولت کاری کررہا ہے اس کے پاس 3 راستے ہیں کہ اول کہ وہ خود ان خارجیوں کو ریاست کے حوالے کردے، یا پھر وہ دہشت گردی کیخلاف کارروائیوں میں ریاست کے اداروں کے ساتھ مل کر اس ناسور کو اپنے انجام تک پہنچائے تاکہ معصوم عوام کو نقصان نہ ہو۔

انہوں نے متنبہ کیا کہ اگر یہ دونوں کام نہیں کرنے تو پھر خارجیوں کے سہولت کار ہوتے ہوئے ریاست پاکستان کے بھرپور ایکشن کے لیے تیار ہوجائیں۔

ترجمان پاک فوج نے صوبے کے شہدا کی تصاویر دکھاتے ہوئے رندھائی ہوئی آواز میں کہا کہ یہ اس دھرتی کے وہ بہادر ہیں جنہوں نے آپ کے لیے جان دی ہے، ان کی شہادتوں اور ان کی قربانیوں پر کسی کو سیاست کی اجازت نہیں دی جاسکتی، انہوں نے کہا کہ پاکستان زندہ باد رہے گا اور خیبرپختونخوا زندہ باد رہے گا، اس حقیقت کو کوئی تبدیل نہیں کرسکتا۔

 

 

 

جدید تر اس سے پرانی