اسلام آباد (آئی آر کے نیوز): سپریم کورٹ نے 9 مئی کے 8 مقدمات میں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے بانی عمران خان کی ضمانت کی درخواستیں منظور کرلیں۔
تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں چیف جسٹس یحییٰ آفریدی کی سربراہی میں جسٹس حسن اظہر رضوی اور جسٹس شفیع صدیقی پر مشتمل 3 رکنی بینچ نے بانی پی ٹی آئی عمران خان کی 9 مئی کے 8 مقدمات میں ضمانت کی درخواستوں پر سماعت کی۔
پی ٹی آئی بانی کی جانب سے بیرسٹر سلمان صفدر پیش ہوئے جبکہ پنجاب کے اسپیشل پراسیکیوٹر ذوالفقار نقوی نے ریاست کی نمائندگی کی، دونوں کے دلائل مکمل ہونے پر چیف جسٹس نے بینچ کا فیصلہ سنایا۔
تاہم عمران خان کے خلاف دیگر کئی مقدمات بھی زیر سماعت ہیں، وہ اگست 2023 سے توشہ خانہ کیس میں قید ہیں اور اڈیالہ جیل میں 190 ملین پاؤنڈ کرپشن کیس کی سزا کاٹ رہے ہیں، ساتھ ہی ان پر 9 مئی فسادات سے متعلق مقدمات بھی چل رہے ہیں۔
پی ٹی آئی نے سپریم کورٹ کے فیصلے کا خیرمقدم کیا اور اس فیصلے کے تناظر میں سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر ’وکٹری فار عمران خان‘ کا ہیش ٹیگ استعمال کیا۔
جمعرات کو سماعت کی ابتدا میں پراسیکیوٹر جنرل پنجاب نے عدالت کو بتایا کہ وہ گزشتہ روز بیماری کے باعث پیش نہیں ہو سکے تھے۔
چیف جسٹس یحییٰ آفریدی نے استفسار کیا کہ عمران خان کےخلاف کیا شواہد ہیں؟ پراسیکیوٹر ذوالفقار نقوی نے کہا کہ 3 گواہان کے بیانات بطور ثبوت پیش کیے ہیں، عمران خان کا تمام مقدمات میں مرکزی کردار ہے۔
چیف جسٹس نے کہاکہ میرٹ پر جائیں گے تو سلمان صفدر بھی بات کریں گے، سپریم کورٹ نے میرٹ پر آبزرویشن دی تو ٹرائل متاثر ہوگا، میرا کام آپ کو متنبہ کرنا تھا باقی جیسے آپ بہتر سمجھیں۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ ملزم کیخلاف آپ کے پاس زبانی اور الیکٹرونک شواہد کے علاوہ کیا ہے، جسٹس شفیع صدیقی نے استفسار کیا کہ ملزم کیخلاف ایف آئی آر کس تاریخ کی ہے؟
پراسیکیوٹر نے بتایا کہ 10 میں سے 3 مقدمات میں ملزم نامزد ہے، ملزم کیخلاف ایف آئی آر 9 مئی کو درج ہوئی، سپریم کورٹ نے عمران خان کے 3 ٹیسٹ کرانے کیلئے ٹرائل کورٹ سے رجوع کی اجازت دی، پولیس نے وائس میچنگ ،فوٹو گرامیٹک، پولی گرامیٹک ٹیسٹ کے لیے مجسٹریٹ سے رجوع کیا، عدالت کی اجازت کے باوجود ملزم نے ٹیسٹ نہیں کرائے۔
چیف جسٹس یحییٰ آفریدی نے کہا کہ اگر ایسا ہے تو قانونی نتائج ہوں گے، جسٹس حسن اظہر رضوی نے استفسار کیا کہ کیا نارملی ایسے ٹیسٹ باقی مقدمات میں بھی ہوتے ہیں۔
پراسیکیوٹر نے نے موقف اپنایا کہ قانون ملزم کی ضمانت سے ممانعت کرتا یے، ملزم کیخلاف ٹھوس شواہد ہیں۔
چیف جسٹس نے کہاکہ شواہد تو ٹرائل کورٹ میں ثابت ہونگے، جسٹس حسن رضوی نے کہا کہ واقعہ کے بعد گرفتاری تک ملزم دو ماہ تک ضمانت پر تھا، کیا دو ماہ کا عرصہ پولیس کو تفتیش کے لیے کافی نہیں تھا؟
چیف جسٹس آفریدی نے پراسیکیوٹر سے دو سوالات پوچھے، انہوں نے استفسار کیا کہ آپ نے لاہور ہائی کورٹ کا فیصلہ پڑھا ہوگا، کیا ضمانت کے کیس میں حتمی رائے دی جا سکتی ہے؟
12 اگست کو سماعت کے دوران چیف جسٹس نے لاہور ہائی کورٹ کے بعض ریمارکس پر سوال اٹھائے تھے اور کہا تھا کہ سپریم کورٹ ان قانونی نکات پر بات نہیں کرے گی تاکہ کسی فریق کے مقدمے پر اثر نہ پڑے۔
چیف جسٹس نے اپنا دوسرا سوال پوچھتے ہوئے کہا کہ اسی عدالت (لاہور ہائی کورٹ) نے سازش کے الزام والے ایک ملزم کو ضمانت دی تھی، کیا اصولِ نظیر اس کیس پر لاگو نہیں ہوگا؟
اس پر پراسیکیوٹر نے مؤقف اپنایا کہ ضمانت کے کیس میں عدالت کے ریمارکس ہمیشہ عبوری نوعیت کے ہوتے ہیں جن کا ٹرائل پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔
بعدازاں عدالت نے 9 مئی کے 8 مقدمات میں بانی پی ٹی آئی عمران خان کی ضمانت کی درخواستیں منظور کرلیں۔
واضح رہے کہ لاہور کی انسداد دہشت گردی عدالت نے نومبر 2024 میں عمران خان کو 9 مئی کے فسادات کے مقدمات میں ضمانت دینے سے انکار کر دیا تھا، ان مقدمات میں لاہور کور کمانڈر ہاؤس لاہور پر حملے کا مقدمہ بھی شامل تھا، عمران خان نے اس فیصلے کو لاہور ہائی کورٹ میں چیلنج کیا تھا مگر 24 جون کو وہاں بھی ان کی درخواست مسترد کر دی گئی، بعد ازاں چند دن بعد انہوں نے یہ فیصلہ سپریم کورٹ میں چیلنج کیا تھا۔