سپریم کورٹ: 9 مئی کے 8 مقدمات میں عمران خان کی ضمانت کی درخواستیں سننے والا بینچ تبدیل

 Image released by Pakistan Tehreek-e-Insaf (PTI) shows PTI founder Imran Khan during his appearance at the Supreme Court on May 16, 2024. — PTI

اسلام آباد (آئی آر کے نیوز): سپریم کورٹ میں بانی چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کے خلاف 9 مئی کے مقدمات میں ضمانت کی اپیلوں کی سماعت کرنے والا بینچ تبدیل کر دیا گیا۔

تفصیلات کے مطابق چیف جسٹس پاکستان یحییٰ آفریدی کی سربراہی میں کیس کی سماعت کرنے والے 3 رکنی بینچ میں جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب کی جگہ جسٹس حسن اظہر رضوی کو شامل کیا گیا ہے، جس کے بعد آج چیف جسٹس یحییٰ آفریدی کی سربراہی میں قائم بینچ سماعت کر رہا ہے جب کہ 9 مئی کیسز میں استغاثہ کے وکیل ذوالفقار نقوی اپنے دلائل پیش کر رہے ہیں۔

گزشتہ روز اسپیشل پراسیکیوٹر ذوالفقار نقوی کی طبیعت ناساز ہونے کے باعث سماعت ملتوی کر دی گئی تھی، جس پر عدالت نے آج دوبارہ کیس کی سماعت کے احکامات جاری کیے تھے۔

بانی چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کی 9 مئی کے 8 مقدمات میں ضمانت کی درخواستوں پر سماعت کے آغاز پر چیف جسٹس نے پراسیکیوٹر ذوالفقار نقوی سے استفسار کیا کہ آپ سے عدالت کے 2 سوالات ہیں۔ لاہور ہائی کورٹ کا فیصلہ آپ نے پڑھا ہوگا۔ کیا ضمانت کیس میں حتمی فائنڈنگ دی جا سکتی ہے؟دوسرا سوال، سازش کے الزام پر اسی عدالت نے ملزمان کو ضمانت دی۔ کیا تسلسل کا اصول اس کیس پر اپلائی نہیں کرے گا؟۔

پراسیکیوٹر نے عدالت میں دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ضمانت کیس میں عدالت کی آبزرویشن ہمیشہ عبوری نوعیت کی ہوتی ہے۔ عدالتی آبزرویشن کا ٹرائل پر کوئی فرق نہیں پڑتا۔ 1996ء سے لے کر 2024ء تک سپریم کورٹ نے مختلف فیصلوں میں قرار دیا کہ ضمانت میں دی گئی آبزرویشنز عارضی نوعیت کی ہوتی ہیں۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ فریقین سمجھ لیں کیس کے مرکزی حقائق پر بات نہیں کرنے دیں گے۔ میرٹس ٹرائل کورٹ نے خود طے کرنے ہیں۔

دوران سماعت سائفر کیس اور اعجاز چوہدری کی ضمانت کے فیصلوں کے حوالے دیے گئے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ سپریم کورٹ نے 9 مئی کے ایک کیس میں سازش کے الزام کے باوجود ضمانت دی۔ ہمیں اس فیصلے کے بارے میں بتائیں۔

اسپیشل پراسیکیوٹر نے بتایا کہ سازش کے حوالے سے کیس میں سپریم کورٹ نے 3 ملزمان کو ضمانت دی۔ سازش کے ایک کیس میں ملزمان ایف آئی آر میں نامزد نہیں تھے۔

بعد ازاں کیس کی سماعت میں ساڑھے گیارہ بجے تک وقفہ کردیا گیا۔

وقفے  کے بعد سماعت کا دوبارہ آغاز ہوا تو اسپیشل پراسیکیوٹر ذوالفقار نقوی نے اپنے دلائل جاری رکھتے ہوئے بتایا کہ سپریم کورٹ نے 2014ء  میں ایک فیصلے میں فریم ورک طے کیا۔ اس فیصلے میں قرار دیا گیا کہ ضمانت کے کیس میں دی گئی آبزرویشنز عارضی نوعیت کی ہوتی ہیں۔ 1996ء  اور 1998ء  میں ضمانت کے مقدمات میں یہی اصول اپنایا گیا کہ ضمانت میں دی گئی آبزرویشنز عارضی ہوتی ہیں۔

اسپیشل پراسیکیوٹر نے بتایا کہ عدالتی فیصلوں میں قرار دیا گیا کہ ضمانت میں دی گئی آبزرویشنز ٹرائل کو متاثر نہیں کرتیں۔ 2022ء  میں محمد رفیق بنام اسٹیٹ کیس میں بھی یہی اصول طے کیا گیا۔ ہائیکورٹ کے فیصلے میں لکھا ہے کہ آبزرویشنز عبوری نوعیت کی ہیں۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ تسلسل کے اصول پر بھی معاونت کریں۔

اسپیشل پراسیکیوٹر نے  جواب دیا کہ اعجاز چوہدری کی سازش کے الزام پر سپریم کورٹ نے ضمانت دی۔ اعجاز چوہدری  کیس بانی  پی ٹی آئی کے کیس سے مختلف ہے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ تینوں فیصلوں میں سازش کے الزام پر ملزم کو ضمانت ملی۔

اسپیشل پراسیکیوٹر نے کہا کہ اعجاز چوہدری اور دیگر کا سازش کا کیس مختلف ہے۔ وہاں کیس یہ تھا کہ شواہد نہیں ہیں۔ ان کیسز میں کہا گیا کہ ایف آئی آر میں نامزد نہیں تھے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ آپ ثابت کریں کہ یہ مقدمہ اور پہلے مقدمات سے مختلف ہے۔

جدید تر اس سے پرانی