اسلام آباد (آئی آر کے نیوز): ایشیائی ترقیاتی بینک (اے ڈی بی) نے خبردار کیا ہے کہ پاکستان میں صرف ٹیکس نیٹ کو وسعت دینا اُس وقت تک مؤثر ثابت نہیں ہوگا جب تک اس کے ساتھ تعمیل اور نفاذ کے لیے جامع حکمتِ عملی اختیار نہ کی جائے۔
ادارے نے واضح کیا ہے کہ موجودہ طریقہ کار نہ صرف مالیاتی مقاصد حاصل کرنے میں ناکام ہے بلکہ ٹیکس دہندگان اور حکومت دونوں پر غیر ضروری بوجھ بھی ڈال رہا ہے۔
اے ڈی بی کی جاری کردہ تازہ پالیسی گائیڈ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان کا تجربہ ظاہر کرتا ہے کہ پہلے سے موجود ٹیکس دہندگان سے مکمل تعمیل کے بغیر نئے افراد کو ٹیکس نظام میں شامل کرنا نہ تو آمدنی میں اضافہ کرتا ہے اور نہ ہی معیشت کو مطلوبہ سطح پر لے جاتا ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اس قسم کی حکمتِ عملی الٹا ٹیکس وصولی کے نظام کو مزید پیچیدہ بنا دیتی ہے اور انتظامی اخراجات بڑھا دیتی ہے۔
بینک کا کہنا ہے کہ 2007 سے 2019 کے دوران پاکستان میں ٹیکس فائلرز کی تعداد تین گنا سے زائد ہو چکی ہے، خاص طور پر 2014 کے بعد جب ٹیکس نیٹ میں اضافے کے لیے سخت اقدامات کیے گئے۔ تاہم، انکم ٹیکس کی وصولی کا تناسب اب بھی مجموعی قومی پیداوار کے 3 سے 4 فیصد کے درمیان ہی محدود ہے، جو حکمتِ عملی کی ناکامی کی عکاسی کرتا ہے۔
رپورٹ کے مطابق، نئی حکمتِ عملی کے بغیر صرف معیشت کو رسمی بنانا بھی آمدنی میں نمایاں اضافہ نہیں لا سکا۔ 2014 سے 2021 کے درمیان رسمی معیشت کا حجم تین گنا بڑھایا گیا، مگر ٹیکس آمدنی میں کوئی خاطر خواہ بہتری نہ آ سکی۔
اے ڈی بی نے زور دیا ہے کہ ٹیکس نیٹ میں توسیع صرف اُس صورت میں کی جائے جب اس کے نتیجے میں حاصل ہونے والے فوائد، جیسے کہ بہتر ڈیٹا، شفافیت، یا معیشت کی رسمی شکل، تعمیل کے اخراجات اور انتظامی دباؤ سے زیادہ ہوں۔ اگر نہ آمدنی میں اضافہ ہو رہا ہو اور نہ ہی کوئی دوسرا معاشی فائدہ حاصل ہو رہا ہو، تو ایسی پالیسی کو برقرار رکھنا ناقابلِ جواز ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان کی ٹیکس پالیسی میں فوری نظرثانی کی ضرورت ہے، ورنہ یہ حکمتِ عملی مالیاتی استحکام کی راہ میں رکاوٹ بن سکتی ہے اور ٹیکس دہندگان پر عدم اعتماد اور اضافی بوجھ میں اضافہ کرے گی۔