سرینگر: بھارتی پولیس نے مقبوضہ جموں و کشمیرمیں چھاپوں کے دوران بڑے
پیمانے پر اسلامی اسکالر مولانا ابوالاعلیٰ مودودی کی کتابیں ضبط کر لیں، جس پر
مقامی عوام اور مسلم رہنماؤں میں شدید غم و غصہ پایا جاتا ہے۔
بھارتی پولیس کا دعویٰ ہے کہ یہ کارروائیاں "کسی ممنوعہ تنظیم کی
نظریات کو فروغ دینے والی کتابوں" کی فروخت روکنے کے لیے کی گئی ہیں۔ تاہم،
مقامی دکانداروں نے تصدیق کی کہ ضبط شدہ کتابیں جماعتِ اسلامی کے بانی مولانا
مودودی کی تصانیف ہیں۔
سرینگر کے علاوہ دیگر شہروں میں بھی بھارتی پولیس کی جانب سے بڑے
پیمانے پر مولانا مودودی کی تصانیف کو ضبط کیا گیا ہے۔ ایک دکاندار نے بتایا کہ
"پولیس اہلکار آئے اور مولانا مودودی کی تمام کتابیں اٹھا کر لے گئے، یہ کہہ
کر کہ ان پر پابندی عائد ہے۔"
پاکستان کی جانب سے اس عمل کی شدید الفاظ میں مزمت کی گئی ہے۔ دفترِ
خارجہ کے ترجمان شفقات علی خان نے کہا کہ "کشمیری عوام کو آزادی دی جانی
چاہیے کہ وہ اپنی پسند کی کتابیں پڑھ سکیں۔"
کشمیری رہنماء میرواعظ عمر فاروق نے بھارتی فورسز کے اس اقدام کو مضحکہ
خیز قرار دیا اور کہا کہ ' اس دیجیٹل دور میں جہاں مودودی صاحب کی تمام تصانیف آن
لائن باآسانی دستیاب ہیں وہاں ان کتابوں کو غائب کرنے سے لوگ ان کو آن لائن ذرائع
سے پڑھ لیں گے'۔
شمیم احمد ٹھوکر نے کہا کہ "یہ کتابیں اخلاقیات اور ذمہ دار شہری
بننے کی تعلیم دیتی ہیں۔ ان پر کریک ڈاؤن کرنا غیر منطقی ہے۔"
ناقدین اور مقبوضہ وادی کے شہریوں کا کہنا ہے کہ 2019 میں نریندر مودی
کی حکومت کی جانب سے کشمیر کی خودمختاری ختم کیے جانے کے بعد شہری آزادیوں پر شدید
قدغن لگائی گئی ہے۔