
اسلام آباد (آئی آر کے نیوز): فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) نے ان سرکاری اہلکاروں کی فہرست میں توسیع کر دی ہے جنہیں اپنے اثاثے عوام کے سامنے ظاہر کرنا ضروری ہوگا، شفافیت بڑھانے کے لیے اٹھایا گیا یہ نیا ریگولیٹری قدم مبینہ طور پر بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کی ایک شرط پوری کرنے کے لیے بھی کیا گیا ہے۔
تفصیلات کے مطابق نئے ضابطے کا ایک اہم حصہ یہ ہے کہ سرکاری ملازمین کے اثاثہ جات کے گوشوارے عوام کے لیے قابلِ رسائی بنا دیے گئے ہیں، اس سے شہریوں کو یہ موقع ملے گا کہ وہ کسی بھی افسر کے سرکاری ملازمت میں شمولیت سے لے کر اب تک کے تمام اثاثوں کا ریکارڈ دیکھ سکیں۔
اس فیصلے کا اعلان جمعرات کو انکم ٹیکس نوٹیفکیشن ایس آر او 2263 کے ذریعے کیا گیا، جس کے تحت ’شیئرنگ آف ڈیکلریشن آف ایسیٹس آف سول سرونٹس رولز، 2023‘ میں ترمیم کی گئی ہے۔
نئی ترمیم کے تحت ’پبلک سرونٹ‘ کی تعریف کو نمایاں طور پر وسیع کر دیا گیا ہے تاکہ زیادہ تعداد میں سرکاری اہلکار اس دائرہ کار میں شامل ہو سکیں۔
اب اس اصطلاح میں وفاقی یا صوبائی حکومتوں میں گریڈ 17 اور اس سے اوپر کے افسران کے ساتھ ساتھ خود مختار اداروں، سرکاری ملکیتی کمپنیوں اور کارپوریشنز میں کام کرنے والے ملازمین بھی شامل ہوں گے۔
نیا قانون ان اہلکاروں پر لاگو نہیں ہوگا جنہیں نیب آرڈیننس 1999 میں درج استثنیٰ حاصل ہے۔
اس سے قبل یہ شرط صرف سول سرونٹس ایکٹ 1973 کے تحت خدمات انجام دینے والے سرکاری افسروں تک محدود تھی، جس کے باعث بڑی تعداد میں سرکاری و نیم سرکاری ملازمین اس دائرے سے باہر رہ جاتے تھے۔
متعدد سرکاری سطحوں اور سرکاری ملکیتی اداروں کے ملازمین کو اثاثہ جات افشا کرنے کے ایک ہی نظام میں لانے کا مقصد احتساب کے لیے زیادہ یکساں اور جامع معیار تشکیل دینا ہے۔