
واشنگٹن (آئی آر کے نیوز): وائٹ ہاؤس کے قریب نیشنل گارڈز کے 2 اہلکاروں پر فائرنگ کے واقعے کے بعد امریکی حکومت نے فوری طور پر غیر معینہ مدت کے لیے افغان شہریوں کی تمام امیگریشن درخواستوں پر کارروائی روک دی ہے۔
امریکی میڈیا کے مطابق ملزم کو ایک افغان شہری کے طور پر شناخت کیا گیا ہے، جو اپنے ملک میں امریکی افواج کے ساتھ کام کر چکا تھا۔
امریکی شہریت اور امیگریشن سروسز نے بدھ کو اعلان کیا کہ یہ فیصلہ سیکیورٹی اور جانچ کے طریقہ کار کے دوبارہ جائزے تک مؤخر کیا گیا ہے۔
یہ فیصلہ اس وقت سامنے آیا جب صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی انتظامیہ سے کہا کہ وہ پچھلی انتظامیہ کے دوران امریکا میں داخل ہونے والے تمام افغان شہریوں کا دوبارہ جائزہ لے۔
ایجنسی نے ایکس پر پوسٹ میں کہا کہ ’ہمارے وطن اور امریکی عوام کی حفاظت اور سلامتی ہمارا واحد مقصد اور مشن ہے‘۔
ڈیپارٹمنٹ آف ہوم لینڈ سیکیورٹی نے ملزم کی شناخت 29 سالہ رحمن اللہ لاکن وال کے طور پر کی، جس کے بارے میں بتایا گیا کہ اس نے امریکا کے مختلف اداروں کے ساتھ افغانستان میں تعاون کیا۔
فاکس نیوز نے سی آئی اے کے ڈائریکٹر جان ریٹکلف کا حوالہ دیتے ہوئے رپورٹ کیا کہ لاکن وال نے امریکی حکومت کی مختلف ایجنسیوں، بشمول انٹیلی جنس سروس کے ساتھ کام کیا، این بی سی کی ایک رپورٹ نے رشتہ دار کے حوالے سے کہا کہ لاکن وال نے امریکی اسپیشل فورسز کے ساتھ مل کر افغان فوج میں 10 سال خدمات انجام دیں۔
یہ پس منظر تفتیش کو مزید پیچیدہ بناتا ہے، جس کی تصدیق کرتے ہوئے ایف بی آئی نے جمعرات کو کہا کہ یہ مکمل طور پر دہشت گردی کی تحقیقات ہے۔
ایف بی آئی کے ڈائریکٹر کاش پٹیل نے پریس کانفرنس میں کہا کہ ’یہ دہشت گردی کی تفتیش ہے، تفتیش کار یہ دیکھ رہے ہیں کہ ملزم کے امریکہ یا افغانستان میں ممکنہ معاونین کون ہیں‘۔
“یہی ایک وسیع البنیاد بین الاقوامی دہشت گردی کی تفتیش کی شکل ہے۔”
ایف بی آئی کے ڈائریکٹر کش پٹیل نے پریس کانفرنس میں کہا کہ ’یہ دہشت گردی کی ایک جاری تفتیش ہے، تفتیش کار امریکا یا افغانستان میں ملزم کے کسی بھی ممکنہ ساتھی کی جانچ کر رہے ہیں، بین الاقوامی دہشت گردی کی تفتیش کی یہی ایک وسیع البنیاد صورت ہے‘۔
ایف بی آئی نے واشنگٹن اسٹیٹ میں ملزم کے رہائش گاہ اور سان ڈیاگو میں متعدد جائیدادوں کی تلاشی لی، تفتیش کاروں نے ملزم کے گھر سے کئی موبائل فونز، لیپ ٹاپس اور آئی پیڈز ضبط کیے۔
فائرنگ کے واقعے نے امیگریشن اور جانچ کے طریقہ کار پر سیاسی ہنگامہ برپا کر دیا، امریکی ہوم لینڈ سیکیورٹی سکریٹری کرسٹی نویم نے کہا کہ ملزم ان افراد میں سے ایک تھا جنہیں جانچے بنا ’آپریشن الائیز ویلکم‘ کے تحت امریکا میں داخل ہونے کی اجازت دی گئی‘، بائیڈن دور کے اس پروگرام کا مقصد امریکا کے ساتھ تعاون کرنے والے افراد کو دوبارہ آباد کرنا تھا۔
ڈی ایچ ایس کے مطابق، لاکن وال اس پروگرام کے تحت 2021 میں امریکا آیا، تاہم ٹرمپ انتظامیہ کے ایک سابق اہلکار نے، نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر، کہا کہ لاکن وال نے دسمبر 2024 میں پناہ کی درخواست دی اور اس سال 23 اپریل کو یعنی ٹرمپ کے عہدہ سنبھالنے کے 3 ماہ بعد منظور ہوئی، اہلکار نے بتایا کہ لاکن وال کا کوئی معلوم فوجداری ریکارڈ نہیں تھا۔
فلوریڈا میں اپنے ریزورٹ سے ریکارڈ شدہ ویڈیو بیان میں ٹرمپ نے فائرنگ کو ’شیطانی، نفرت انگیز اور دہشت گردانہ عمل‘ قرار دیا۔
لاکن وال پر حملہ آور ہونے کے ارادے کے ساتھ فائرنگ کے الزامات ہیں۔ امریکی اٹارنی برائے ڈسٹرکٹ آف کولمبیا، جینائن پیرو نے کہاکہ اگر گارڈز اہلکار ہلاک ہو گئے تو اسے فرسٹ ڈگری قتل کے الزامات کا سامنا ہوگا‘۔
جینائن پیرو نے پریس کانفرنس میں ملزم سے مخاطب ہو کر کہا کہ آپ نے غلط ہدف، غلط شہر اور غلط ملک چنا۔
دو زخمی اہلکار 20 سالہ سارہ بیکسٹرم اور 24 سالہ اینڈریو وولف جمعرات تک نازک حالت میں تھے، جینائن پیرو نے کہا کہ انہیں گارڈ کی حیثیت سے حلف اٹھائے 24 گھنٹے بھی نہیں ہوئے تھے جب انہیں گولی ماری گئی۔
اہلکاروں نے بتایا کہ لاکن وال، جو .357 سمتھ اینڈ ویسن ریوالوور سے مسلح تھا، نے اہلکاروں پر وائٹ ہاؤس سے چند بلاکس دور سب وے اسٹاپ کے نزدیک گشت کرتے ہوئے گھات لگاکر حملہ کیا۔
اس واقعے پر بین الاقوامی ردعمل بھی آیا، اور اقوام متحدہ کے ایک اہلکار نے احتیاط برتنے کا مشورہ دیا۔
کابل میں اقوام متحدہ کی پناہ گزین ایجنسی کے سربراہ عرافات جمال نے کہا کہ انہیں امید ہے کہ یہ فائرنگ امریکا کے ساتھ وفاداری سے کھڑے ہونے والے افغان شہریوں کے بارے میں منفی تاثر پیدا نہیں کرے گی۔
امریکی وزیر دفاع پیٹ ہیگ سیٹھ کے مطابق حملے کے ردعمل میں، ٹرمپ نے دارالحکومت میں مزید 500 نیشنل گارڈ اہلکار تعینات کرنے کا حکم دیا۔