
واشنگٹن (آئی آر کے نیوز): امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے منگل کے روز کہا ہے کہ سعودی عرب کو ’اہم نان نیٹو اتحادی‘ قرار دیا جا رہا ہے۔
ٹرمپ نے وائٹ ہاؤس میں بلیک ٹائی عشائیے سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ’آج رات، مجھے یہ اعلان کرتے ہوئے خوشی ہو رہی ہے کہ ہم سعودی عرب کو باضابطہ طور پر اہم غیر نیٹو اتحادی قرار دے کر اپنے عسکری تعاون کو ایک نئی بلندی تک لے جا رہے ہیں، جو ان کے لیے بہت اہم ہے‘۔
ٹرمپ نے مزید کہا کہ ’اور میں اب پہلی مرتبہ آپ کو یہ بتا رہا ہوں، کیونکہ وہ آج کی رات کے لیے اسے تھوڑا سا راز رکھنا چاہتے تھے’، یہ وہ درجہ ہے جو اس سے پہلے صرف 19 ممالک کو دیا گیا ہے۔
پولیٹیکو کے مطابق، اس فہرست میں شامل دیگر ممالک میں اسرائیل، اردن، کویت اور قطر بھی شامل ہیں۔
اس حیثیت سے امریکا کے شریک ملک کو عسکری اور اقتصادی مراعات ملتی ہیں، مگر اس میں امریکا کی جانب سے کسی قسم کی سلامتی کی ضمانت شامل نہیں ہوتی۔
ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا کہ جون میں ایران کی جوہری تنصیبات پر امریکی حملوں نے سعودی عرب کو مزید محفوظ بنا دیا ہے۔
اسی دوران، محمد بن سلمان نے اس سے قبل یہ وعدہ بھی کیا تھا کہ وہ امریکا میں سعودی سرمایہ کاری کو ایک کھرب ڈالر تک بڑھائیں گے، جبکہ اس سے پہلے مئی میں ٹرمپ کے سعودی عرب کے دورے کے موقع پر 600 ارب ڈالر کا وعدہ کیا گیا تھا، تاہم انہوں نے کوئی تفصیلات یا ٹائم فریم نہیں بتایا۔
عشائیے میں خطاب کرتے ہوئے سعودی ولی عہد نے ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے پُرتپاک استقبال کرنے پر شکریہ ادا کیا۔
انہوں نے کہا کہ یہ تعلق تقریباً نو دہائیوں پہلے شروع ہوا تھا، اور اس دوران دونوں ممالک ایک ساتھ کام کرتے رہے ہیں، لیکن آج کا دن خاص ہے، ہم سمجھتے ہیں کہ امریکا اور سعودی عرب کے درمیان اقتصادی تعاون کا افق پہلے سے کہیں زیادہ بڑا اور وسیع ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ دونوں ممالک ایسے معاہدوں پر بھی دستخط کر رہے ہیں جو تعلقات کو مزید گہرا کریں گے۔
دفاعی معاہدہ
الگ سے جاری کی گئی وائٹ ہاؤس کی ایک فیکٹ شیٹ میں کہا گیا ہے کہ دونوں ممالک نے ایک تزویراتی دفاعی معاہدے پر دستخط کیے ہیں، جو مشرقِ وسطیٰ میں روک تھام کی قوت کو مضبوط کرتا ہے، امریکی دفاعی کمپنیوں کے لیے سعودی عرب میں کام کرنا آسان بناتا ہے اور امریکی اخراجات میں کمی کے لیے سعودی عرب کی جانب سے نئے مشترکہ مالی تعاون کو یقینی بناتا ہے۔
یہ معاہدہ بظاہر اس نیٹو طرز کے معاہدے سے کم تر ہے جس کی سعودی عرب نے ابتدا میں خواہش ظاہر کی تھی اور جسے امریکی کانگریس کی منظوری درکار ہوتی۔
وائٹ ہاؤس نے اعلان کیا کہ ٹرمپ نے ایف-35 لڑاکا طیاروں کی مستقبل کی فراہمی کی بھی منظوری دے دی ہے اور سعودی عرب نے 300 امریکی ٹینک خریدنے پر رضامندی ظاہر کی ہے۔
مملکت سعودیہ نے ان جدید طیاروں کے 48 یونٹس خریدنے کی درخواست کی ہوئی ہے، اگر یہ سودہ طے پا جاتا ہے تو یہ سعودی عرب کو ایف-35 کی پہلی امریکی فروخت ہو گی اور ایک بڑی پالیسی تبدیلی بھی۔
یہ معاہدہ مشرقِ وسطیٰ میں عسکری توازن بدل سکتا ہے اور اس بات کا امتحان بھی بن سکتا ہے کہ امریکا، اسرائیل کی معیاری عسکری برتری برقرار رکھنے کی اپنی پالیسی کو کس طرح برقرار رکھتا ہے۔
اب تک، مشرقِ وسطیٰ میں ایف-35 رکھنے والا واحد ملک اسرائیل ہے۔
دونوں ممالک نے سول جوہری توانائی پر تعاون کے حوالے سے مذاکرات کی تکمیل پر ایک مشترکہ اعلامیہ پر بھی دستخط کیے، جس کے بارے میں وائٹ ہاؤس نے کہا کہ یہ طویل المدتی جوہری توانائی شراکت داری کی قانونی بنیاد فراہم کرے گا۔
محمد بن سلمان طویل عرصے سے ایسے معاہدے کے خواہش مند ہیں جو انہیں امریکی جوہری ٹیکنالوجی تک رسائی دے سکے اور سعودی عرب کو امارات اور روایتی علاقائی حریف ایران کے برابر لا سکے۔
مگر جوہری تعاون کے حوالے سے پیش رفت مشکل رہی ہے کیونکہ سعودی عرب اس امریکی شرط کو قبول نہیں کر رہا تھا جس کے مطابق وہ یورینیم کی افزودگی یا استعمال شدہ ایندھن کی دوبارہ پروسیسنگ سے مکمل طور پر دستبردار ہو۔