غزہ میں جنگ بندی کے امکانات روشن: امریکی دعویٰ

 

کوالالمپور (آئی آر کے نیوز): امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو نے کہا ہے کہ غزہ میں جنگ بندی کے امکانات پہلے کے مقابلے میں کہیں زیادہ روشن ہو چکے ہیں۔ ان کے مطابق فریقین کے درمیان متعدد شرائط پر اتفاق ہو چکا ہے، اب صرف ان شرائط پر عملدرآمد کے طریقہ کار پر بات چیت باقی ہے۔

تفصیلات کے مطابق ملائیشیا میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے مارکو روبیو کا کہنا تھا کہ "ہم جنگ بندی کے قریب پہنچ چکے ہیں، بات چیت مثبت سمت میں جا رہی ہے، اگرچہ ماضی میں اسی مقام پر مذاکرات ناکام بھی ہو چکے ہیں۔" روبیو نے فلسطینی تنظیم حماس پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ اگر حماس ہتھیار ڈالنے پر رضامند ہو جائے تو تنازع کا فوری خاتمہ ممکن ہے۔

دوسری جانب، حماس کی جانب سے بھی گزشتہ روز امن مذاکرات کو سنجیدگی سے جاری رکھنے کا عندیہ دیا گیا۔ تنظیم نے 10 قیدیوں کی رہائی کی پیشکش کی ہے تاہم واضح کیا ہے کہ کئی اہم نکات پر اب بھی اختلافات باقی ہیں۔ حماس کے ترجمان کے مطابق وہ ثالثوں کے ساتھ خلوص نیت سے بات چیت جاری رکھے ہوئے ہیں تاکہ غزہ کے عوام کو درپیش مشکلات کا خاتمہ ممکن ہو سکے۔

 

نیتن یاہو کا سخت مؤقف: شرائط نہ مانیں تو طاقت سے منوائیں گے

 

ادھر اسرائیلی وزیراعظم بینجمن نیتن یاہو نے اپنے تازہ بیان میں واضح کیا ہے کہ مجوزہ 60 روزہ جنگ بندی کے دوران اگر حماس نے اسرائیل کی شرائط پر عمل نہ کیا تو ان شرائط پر فوجی طاقت سے عمل کرایا جائے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ جنگ بندی کے لیے تین بنیادی شرائط ناقابلِ تبدیل ہیں: حماس کا غیر مسلح ہونا، غزہ کی حکمرانی سے دستبرداری اور عسکری صلاحیتوں کا مکمل خاتمہ۔

نیتن یاہو نے کہا اگر ان ساٹھ دنوں میں ان شرائط پر عمل نہ ہوا تو ہم خود ان پر عملدرآمد کرائیں گے، چاہے طاقت کا استعمال کیوں نہ کرنا پڑے۔

یاد رہے کہ جنگ بندی کے لیے اسرائیل اور حماس کے درمیان بالواسطہ مذاکرات قطر میں جاری ہیں، جن میں امریکا، قطر اور مصر ثالث کا کردار ادا کر رہے ہیں۔ سیاسی تجزیہ کار نیتن یاہو کے بیان کو ایک طرف سفارتی لچک اور دوسری طرف دباؤ کی حکمتِ عملی قرار دے رہے ہیں تاکہ مذاکرات کے دوران حماس سے زیادہ سے زیادہ شرائط منوائی جا سکیں۔

غزہ کی موجودہ صورتحال میں کسی بھی جنگ بندی معاہدے کو پائیدار امن کی طرف ایک اہم پیش رفت قرار دیا جا رہا ہے، تاہم فریقین کے درمیان اعتماد کا فقدان اس عمل کو پیچیدہ بنائے ہوئے ہے۔

جدید تر اس سے پرانی