کسی قیدی پر تشدد نہیں ہورہا، پی ٹی آئی کے رہنما تشدد والی کہانیاں مت بیان کریں: ن لیگ

Pakistan Muslim League-Nawaz (PML-N) Senator Irfan Siddiqui. — APP/File

اسلام آباد (آئی آر کے نیوز): مسلم لیگ (ن) کے پارلیمانی لیڈر عرفان الحق صدیقی نے کہا ہے کہ کسی قیدی پر تشدد نہیں ہورہا، جیل میں مشکلات ہوتی ہیں لیکن پی ٹی آئی کے رہنما تشدد والی کہانیاں مت بیان کریں۔

تفصیلات کے مطابق سینیٹ اجلاس سے اظہار خیال کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ قیدیں کاٹنا سیاستدانوں کا زیور ہے، چئیرمین سینیٹ آپ نے 9 سال، نواز شریف نے مجموعی طور پر 4 سال قید کاٹی، کسی قیدی پر تشدد نہیں ہورہا، جیل میں مشکلات ہوتی ہیں لیکن تشدد والی کہانیاں مت بیان کریں، آپ کے جاری کردہ پروڈکشن آرڈرز پر عمل ہونا چاہئے۔

 یہاں یہ بھی خیال رہے کہ سینیٹ کا 245 واں اجلاس چیئرمین یوسف رضا گیلانی کی زیر صدارت ہوا جس میں پاکستان تحریک انصاف کے گرفتار سینیٹر عون عباس پبی کو پروڈکشن آرڈر پر پیش کیا گیا جبکہ سینیٹر اعجاز چوہدری ایک بار پھر پیش نہ کیے گئے۔

سینیٹ کے اجلاس میں   اعجاز چوہدری کے پروڈکشن آرڈرز پر رولنگ دیتے ہوئے چیئرمین سینیٹ نے کہا کہ سینیٹ کے 245ویں اجلاس میں سینیٹر اعجاز چوہدری کے پروڈکشن آرڈرز جاری کیے۔ میڈیا رپورٹس سے پتا چلا کہ اعجاز چوہدری کے پروڈکشن آرڈرز پر عمل نہیں کیا گیا۔

انہوں نے کہا کہ سینیٹر اعجاز چوہدری کے پروڈکشن آرڈرز پر عمل نہیں کیا گیا۔ اعجاز چوہدری کے پروڈکشن آرڈرز پر عملدرآمد نہ ہونے کا معاملہ استحقاق کمیٹی کے سپرد کردیا۔ اعجاز چوہدری کے پروڈکشن آرڈرز پر عملدرآمد نہ ہونے سے ایوان کا استحقاق مجروح ہوا ہے۔

دوسری جانب، پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) کے سینیٹر عون عباس بپی کو پروڈکشن آرڈرز پر عمل کرتے ہوئے ایوان بالا (سینیٹ) پہنچایا گیا، جہاں انہوں نے چیئرمین سینیٹ یوسف رضا گیلانی سے ملاقات کرکے ان کا شکریہ ادا کیا۔

بعد ازاں ایوان میں اظہار خیال کرتے ہوئے عون عباس بپی نے کہا کہ سب سے پہلے چیئرمین صاحب آپ کا شکریہ  کہ آپ نے اخلاقی جرات کا مظاہرہ کیا۔ آپ نے اعجاز چوہدری اور میرے ایشو پر اسٹینڈ لیا، جسے تاریخ میں یاد رکھا جائے گا۔

اپنی گرفتاری کے بارے میں انہوں نے بتایا کہ 6 مارچ کو میں گھر تھا، میں بیڈ روم میں اپنی اہلیہ کے ساتھ سُو رہا تھا، اُنہوں نے اتنا زور سے دروازہ پیٹا کہ لاک ٹوٹ گیا، مجھے کالر سے پکڑ کر گھسیٹتے ہوئے باہر لے گئے، پھر کالے رنگ کا ماسک پہنا کر دو ڈھائی گھنٹے سفر کراتے رہے، رات کو عدالت پیش کیا گیا۔ 

انہوں نے مزید بتایا کہ صبح ساڑھے 8 بجے 20 لوگ گھر آئے۔ میرے دفتر اور گھر پر ریڈ کیا گیا۔ میں سو رہا تھا، مجھے کالر سے پکڑ کر گھسیٹ کر لے کر گئے۔ مجھ سے موبائل فون مانگا گیا، میرے بیٹے کو پکڑ کر لائے پھر چھوڑ دیا۔

عون عباس بپی نے بتایا کہ میرے منہ پر کالا کپڑا تھا، دو گھنٹے تک سفر کے بعد جج کےسامنے لایا گیا۔ جج نے پوچھا آپ پر کیا الزام ہے؟ تو  میں نے پوچھا کہ میں ہوں کہاں۔ جج نے بتایا کہ آپ بہاولپور کی تحصیل یزمان میں ہیں۔ پھر جج نے بتایا کہ آپ پر 5 ہرن کے شکار کا الزام ہے۔

انہوں نے کہا کہ جب ایک روزہ ریمانڈ پر تھانے لے کر جایا گیا تو پتا چلا کہ یہ وہ تھانہ ہے جہاں فواد چوہدری پر ٹوٹیاں چوری کا مقدمہ ہے۔ مجھے پنجاب میں مہنگائی کے خلاف مہم چلانے پر نشانہ بنایا گیا۔

عون عباس بپی نے کہا کہ یہ چیزیں مجھے میرے راستے سے نہیں ہٹا سکتیں، میں عمران خان اور تمام گرفتار رہنماؤں کے ساتھ کھڑا ہوں، اور جب تک میری آخری سانس ہے میں وفا کرتا رہوں گا۔ عمران خان اور بشریٰ بی بی دونوں پر جیل میں ظلم ہورہا ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ کاش آج اعجاز چوہدری بھی یہاں ساتھ ہوتے۔ اعجاز چوہدری کے پروڈکشن آرڈرز پر عمل کرائیں، نہیں تو میرے آرڈرز منسوخ کردیں۔

عون عباس بپی نے سماجی رابطوں کی ویب سائٹ "ایکس" پر اپنی پوسٹ میں لکھا کہ عمران خان میرا لیڈر ہے، اُس کے ساتھ ظلم ہو رہا ہے، میں اپنے لیڈر کے ساتھ سچا تھا، ہوں اور رہوں گا، جب تک میری سانس میں سانس ہے، عمران خان زندہ باد کہتا رہوں گا، کوئی فرق نہیں پڑتا آپ کتنی بار مجھے میرے بستر سے اُٹھا کر گرفتار کرتے رہیں، یہ وفا رُک نہیں سکتی۔

بعد ازاں عون عباس بپی ، اعجاز چوہدری کے پروڈکشن آرڈرز پر عمل نہ ہونے پر بطور احتجاج ایوان سے باہر چلے گئے، جہاں پولیس انہیں پارلیمنٹ ہاؤس سے لے کر روانہ ہو گئی۔

 

 

جدید تر اس سے پرانی