عمران خان کی جماعت پر بدترین کریک ڈاؤن کیا گیا: پاکستان 2025 کے لیے سوکس مانیٹر کی انسانی حقوق کی واچ لسٹ میں شامل

اسلام آباد (آئی آر کے نیوز): پاکستان کو 2025 کے لیے سوکس مانیٹر کی انسانی حقوق کی واچ لسٹ میں شامل کرلیا گیا ہے۔

تفصیلات کے مطابق پاکستان کو لسٹ میں شامل کرنے کی وجہ شہری آزادی محدود ہونا، انسانی حقوق کے کارکنوں کو حکام کی جانب سے من مانے طریقے سے نشانہ بنانا اور صحافیوں کو کالے قوانین کے ذریعے دبانا بتائی گئی ہے۔

 

مکمل رپورٹ پڑھیں:

https://monitor.civicus.org/watchlist-march-2025/ 

 

 سوکس کی جانب سے کہا گیا ہے کہ پاکستان اس سال کی واچ لسٹ میں ڈیموکریٹک ریپبلک آف کانگو، سربیا، اٹلی اور امریکا کے ساتھ شامل ہے، جس میں "شہری آزادیوں میں تیزی سے کمی کا سامنا کرنے والے ممالک کی فہرست ہے"۔

سوکس نے اپنی ویب سائٹ پر پاکستان کی حیثیت کو "دبایا ہوا" قرار دیا ہے۔


مانیٹر نے گزشتہ سال اکتوبر اور نومبر میں سیاسی مخالفین کے احتجاج کے خلاف منظم کریک ڈاؤن کا مشاہدہ کیا، سوکس نے کہا کہ احتجاج سے پہلے سابق وزیراعظم پاکستان عمران خان کی جماعت پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) کے سیکڑوں افراد کو گرفتار کیا گیا اور ان پر مبہم اور حد سے زیادہ وسیع قوانین کے تحت فرد جرم عائد کی گئی، حکام نے مظاہرین کی نقل و حرکت کو روکنے کے لیے اہم شاہراہوں اور راستوں کو بند کر دیا۔

پریس ریلیز میں کہا گیا ہے کہ پاکستان کی جانب سے کارکنوں کو مجرم قرار دینے، حزب اختلاف اور اقلیتوں کے احتجاج کو دبانے اور ڈیجیٹل پابندیوں کے باعث ملک کو سوکس مانیٹر واچ لسٹ میں شامل کیا گیا ہے۔

سوکس کے مطابق اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کمیٹی نے شہری اور سیاسی حقوق پر پاکستان کے ریکارڈ کا جائزہ لیا، اور اکتوبر 2024 میں شہری آزادیوں کے تحفظ کے لیے سفارشات پر زور دیا۔

سوکس کے ایڈووکیسی اینڈ کمپین افسر برائے ایشیا راجویلو کرونانیتھی نے کہا کہ حکام کو پرامن اجتماع اور اظہار رائے کے حقوق کے تحفظ اور مجرموں کو انصاف کے کٹہرے میں لانے کے لیے اقدامات کرنے چاہئیں۔

دوسری جانب، سوکس نے نوٹ کیا کہ صحافیوں کو الیکٹرانک جرائم کی روک تھام کے قانون (پیکا) کے تحت نشانہ بنایا گیا، ان پر ریاستی اداروں کے خلاف ’جھوٹی کہانیاں پھیلانے کا الزام‘ لگایا گیا تھا۔

مانیٹر نے مزید کہا کہ پیکا میں جنوری میں ترمیم کی گئی تھی تاکہ آزادی اظہار پر اپنے کنٹرول کو مزید سخت کیا جاسکے، جبکہ اس نے نوٹ کیا کہ سوشل میڈیا پلیٹ فارم ’ایکس‘ فروری 2024 سے پاکستان میں بند ہے، سوکس نے اپنی پریس ریلیز میں احتجاج کے دوران موبائل اور انٹرنیٹ سروسز کی معطلی کا بھی ذکر کیا۔

اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ حزب اختلاف اور نسلی اقلیتی گروہوں کی جانب سے احتجاج کے خلاف کریک ڈاؤن اور صحافیوں کو نشانہ بنانا اور ڈیجیٹل پابندیاں پاکستان کی انسانی حقوق کی بین الاقوامی ذمہ داریوں سے مطابقت نہیں رکھتیں، وہ اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کمیٹی کی سفارشات کے بھی خلاف ہیں۔


مزید برآں، اعلامیہ میں کہا گیا ہے کہ حکومت نے بلوچ یکجہتی کمیٹی کی رہنما ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ اور انسانی حقوق کی کارکن اور وکیل ایمان زینب مزاری کے خلاف جھوٹے الزامات عائد کیے ہیں۔

بیان میں کہا گیا ہے کہ ماہ رنگ بلوچ کو دھرنے منعقد کرنے اور اجتماعات میں شرکت کرنے پر انسداد دہشت گردی ایکٹ سمیت متعدد مجرمانہ الزامات کا سامنا ہے۔

دریں اثنا، اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ ایمان زینب مزاری کو دہشت گردی کے الزامات میں نشانہ بنایا گیا کیونکہ وہ تشدد اور ظلم و ستم کے متاثرین کے لیے قانونی حل کی فعال حمایت کرتی ہیں، اور مظلوم مذہبی اور نسلی برادریوں کے حقوق کی وکالت کرتی ہیں۔

سوکس نے کہا کہ 2024 میں بھی پشتون تحفظ موومنٹ پر پابندی لگانے کے لیے انسداد دہشت گردی ایکٹ کو استعمال کیا گیا تھا۔

سوکس کے ایڈووکیسی اینڈ کمپین افسر برائے ایشیا راجویلو کرونانیتھی نے کہا کہ ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ اور ایمان زینب مزاری جیسے انسانی حقوق کے محافظین کے خلاف الزامات سیاسی انتقام ہیں، یہ اختلاف رائے کو خاموش کرنے کی کوششیں ہیں۔

اعلامیے میں کہا گیا کہ سوکس حکومت سے مطالبہ کرتا ہے کہ وہ ان من گھڑت الزامات کو فوری طور پر واپس لے، اور پشتون تحفظ موومنٹ پر عائد پابندی ختم کرے۔

مانیٹر نے کہا کہ سندھ اور بلوچ نسل کے لوگوں کے احتجاج کو حکام کی جانب سے جبر کا سامنا کرنا پڑا، یہ واقعات شہری آزادیوں کو برقرار رکھنے کے پاکستان کے وعدوں کی کھلی خلاف ورزی ہیں۔

 

جدید تر اس سے پرانی