رواں مالی سال کے دوران صحت کا بجٹ 33 فیصد کم کر دیا گیا، مصطفیٰ کمال

 MQM-P leader Mustafa Kamal denounces Sindh CM's claims about development

اسلام آباد (آئی آر کے نیوز): وفاقی وزیر صحت مصطفیٰ کمال نے گزشتہ روز سینیٹ کی مجلس قائمہ برائے صحت کو بتایا ہے کہ رواں مالی سال کے لیے صحت کا بجٹ گزشتہ سال کے مختص بجٹ کے مقابلے میں 33 فیصد کم کر دیا گیا ہے۔

تفصیلات کے مطابق انہوں نے کہا کہ گزشتہ سال وزارت کا بجٹ 21 ارب روپے تھا، جو اب کم ہو کر 14 ارب روپے رہ گیا ہے، اس سال کوئی نیا منصوبہ شروع نہیں کیا گیا، اگرچہ 12 نئے منصوبے تجویز کیے گئے تھے، لیکن ان کے لیے کوئی فنڈز مختص نہیں کیے گئے، جس کے باعث وہ رک گئے ہیں۔

 

وفاقی وزیر صحت نے کہا کہ تمام جاری منصوبے منظور شدہ بجٹ کی حدود میں رہتے ہوئے چلائے جا رہے ہیں۔

کمیٹی کے اجلاس کی صدارت سینیٹر عامر ولی الدین چشتی نے کی، جب کہ سینیٹر سید مسرور احسن، محمد ہمایوں محمند، دلاور خان، انوشہ رحمٰن احمد خان، ثمینہ ممتاز زہری اور ڈاکٹر زرقا سہروردی تیمور سمیت وزارت کے متعلقہ حکام نے شرکت کی۔

وفاقی وزیر کا کہنا تھا کہ 12 نئے منصوبے تجویز کیے گئے تھے مگر ان کے لیے کوئی فنڈز مختص نہیں کیے گئے۔

 

سینیٹر انوشہ رحمٰن نے عوام کو طبی سہولتیں فراہم کرنے کے لیے جامع ہیلتھ کیئر کارڈ متعارف کرانے کی ضرورت پر زور دیا تاکہ ٹیکس دہندگان کو ریلیف مل سکے۔

تاہم، مصطفیٰ کمال نے بتایا کہ ہیلتھ کیئر کارڈ کی سہولت کچھ صوبوں میں موجود ہے لیکن دیگر میں دستیاب نہیں، سندھ حکومت نے بھی تھرپارکر میں صحت کی سہولیات فراہم کرنے کی ذمہ داری خود سنبھال لی ہے، اگرچہ سندھ میں ہیلتھ کیئر کارڈ سسٹم ابھی تک متعارف نہیں کرایا گیا، مگر صوبے کے 16 ہسپتال عوام کو مفت علاج کی سہولت فراہم کر رہے ہیں۔

سینیٹر انوشہ رحمٰن نے مشاہدہ کیا کہ ہسپتالوں میں محض انتظامی عہدوں کے لیے جدوجہد جاری ہے، انہوں نے زور دے کر کہا کہ یہ دیکھنا ضروری ہے کہ ڈاکٹرز انتظامی عہدے کیوں سنبھال رہے ہیں، ڈاکٹرز کو انتظامی عہدوں کے بجائے مریضوں کے علاج کے لیے مقرر کیا جانا چاہیے۔

سینیٹر ثمینہ ممتاز زہری نے ڈاکٹروں کے رویے اور طرزِ عمل کو بہتر بنانے کی ضرورت پر زور دیا اور کہا کہ میڈیکو لیگل افسران اکثر اپنی ڈیوٹی پر موجود نہیں ہوتے، سرکاری ہسپتالوں میں بنیادی سہولتوں کی کمی ہے۔

 

سینیٹر محمد ہمایوں مہمند نے کہا کہ معروف ڈاکٹرز ہیلتھ کارڈ سسٹم کی مخالفت کر رہے ہیں، کیوں کہ ان کی مشاورتی فیسیں بہت زیادہ ہیں۔

انہوں نے کہا کہ آدھے سے زیادہ کنسلٹنٹس اپنی ڈیوٹی باقاعدگی سے انجام نہیں دیتے اور تجویز دی کہ چوں کہ پمز کو ہر سال 6 ارب روپے دیے جا رہے ہیں، اس لیے اسے کسی دوسرے انتظامی ادارے کے حوالے کر دینا چاہیے۔

ڈاکٹروں کی کمی پر بات کرتے ہوئے وفاقی وزیر مصطفیٰ کمال نے کہا کہ پاکستان میں ہر سال 22 ہزار ڈاکٹر گریجویٹ ہوتے ہیں، مگر بڑی تعداد میں خواتین اپنی ڈگری مکمل کرنے کے بعد پریکٹس نہیں کرتیں۔

 

 

جدید تر اس سے پرانی