عام انتخابات 2024 پر رپورٹ کا تاخیر سےاجرا، وکلا و سماجی کارکنوں کا دولتِ مشترکہ کوخط لکھ کر اظہارتشویش

 — فائل فوٹو: اے ایف پی

اسلام آباد (آئی آر کے نیوز): عام انتخاب 2024 کی رپورٹ کی اجرا میں تاخیر پر پاکستانی وکلا، صحافیوں اور سماجی کارکنوں نے دولت مشترکہ کو خط لکھ کر تشویش کا اظہار کیا ہے۔

ملک بھر سے 130 سماجی و سیاسی کارکنوں، وکلا اور صحافیوں نے ایک دستخط شدہ خط دولتِ مشترکہ سیکرٹریٹ کو جمع کرایا ہے جس میں کامن ویلتھ آبزرور گروپ ( سی او جی) سے عام انتخابات 2024 پر رپورٹ کی 19 ماہ کی تاخیر سے اجرا پر تحفطات کا اظہار کیا گیا ہے۔

رواں ہفتے جاری ہونے والی اس رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ عام انتخابات کے دوان ایسی پابندیاں لگائی گئیں جس سے بنیادی سیاسی حقوق پر قدغن لگیں اور ایک جماعت کی منصفانہ مقابلے کی صلاحیت میں رکاوٹیں کھڑی کی گئیں۔

رپورٹ میں عام انتخابات کی رات کو موبائل سروس کی معطلی کا بھی ذکر کیا گیا، جس نے شفافیت پر سوالات اٹھائے اور نتائج میں تاخیر کا سبب بنی۔

اس کھلے خط کو کچھ دستخط کنندگان نے سوشل میڈیا پر بھی شیئر کیا، اس خط میں رپورٹ کے اجرا میں غیر معمولی تاخیر پر گہری تشویش کا اظہار کیا گیا اور ساتھ ہی یہ نشاندہی بھی کی گئی کہ انتخابی رپورٹس معمول کے مطابق بغیر کسی تاخیر کے شائع کی جاتی ہیں۔

خط میں لکھا گیا کہ ہمارے علم میں نہیں کہ کوئی اور کامن ویلتھ آبزرور رپورٹ 10 ماہ بعد اُس وقت شائع کی گئی ہو، جب مبصر گروپ نے اپنی حتمی رپورٹ سیکرٹریٹ میں جمع کرادی تھی۔

خط میں کہا گیا کہ عام انتخابات 2013 کی رپورٹ صرف 39 کے بعد 19 جون کو شائع کر دی گئی تھی جبکہ عام انتخابات 2018 کی رپورٹ بھی اسی سال کے اندر شائع کی گئی۔

مزید کہا گیا کہ پاکستان کے بعد کچھ ممالک میں ہونے والی الیکشنز کی رپورٹ پاکستان سے قبل شائع کی گئیں، جس میں سری لنکا میں دسمبر 2024، گھانا میں مارچ 2025 اور ٹرینیڈاڈ و ٹوباگو میں جولائی 2025 میں رپورٹس شائع ہوئیں۔

خط کے متن میں کہا گیا کہ یہ بات ہمارے مشاہدے میں آئی ہے کہ سرکاری رپورٹ 30 ستمبر کو دولتِ مشترکہ سیکرٹریٹ نے اُس وقت شائع کی جب ایک آزاد خبر رساں ادارے ’ڈراپ سائٹ نیوز‘ نے 13 ستمبر کو اس کی لیک شدہ کاپی شائع کردی تھی۔

دونوں رپورٹس 20 نومبر 2024 کو سیکرٹریٹ کو جمع کرائی گئی تھیں اور ان پر کامن ویلتھ آبزرور گروپ کے تمام 15 اراکین نے دستخط بھی کیے تھے، جو اس بات کا اشارہ ہے کہ رپورٹ کو حتمی شکل دی جا چکی تھی اور سیکرٹریٹ کو بھیج دی گئی تھی لیکن 10 ماہ تک عوام کے سامنے نہیں لائی گئی، جس کی وضاحت درکار ہے۔

خط میں مزید کہا گیا کہ رپورٹ کو روکنا دولتِ مشترکہ کے انتخابی مشاہدے کے نظرثانی شدہ رہنما اصولوں کی دفعہ 6.3 (چیئرمین 48 گھنٹوں کے اندر ابتدائی بیان جاری کرے گا) اور دولتِ مشترکہ انتخابی مشاہدہ ہینڈبک کی دفعہ 6.7 (حتمی رپورٹ) کی خلاف ورزی ہے۔

ان قواعد کے مطابق انتخابی رپورٹس ’بروقت جاری کی جانی چاہئیں اور ساتھ ہی عوام کی دسترس میں بھی ہوں۔

مزید برآں، 14 ستمبر کو دولتِ مشترکہ نے ایک بیان میں تسلیم کیا کہ یہ خط وفاقی حکومت اور پاکستان کے الیکشن کمیشن کے ساتھ شیئر کیا گیا تھا۔

خط میں کہا گیا کہ یہ سنگین اعتراف کہ رپورٹ انتخابات میں دھاندلی کرنے والوں کے ساتھ شیئر کی گئی مگر اسے دھاندلی کے متاثرین، پاکستانی ووٹرز، اپوزیشن جماعتیں اور سول سوسائٹی سے روکا گیا، یہ اقدام دولتِ مشترکہ کے چارٹر ، جمہوریت اور انسانی حقوق کے وعدوں سے غداری ہے اور خود انتخابی مشاہدے کی ساکھ کو نقصان پہنچاتی ہے۔

رپورٹ میں مزید تصدیق کی گئی کہ اہم اداروں کے فیصلوں نے مسلسل ایک مخصوص جماعت کی انتخابات میں حصہ لینے کی صلاحیت کو محدود کیا اور ان فیصلوں نے انتخابی عمل کی ساکھ، شفافیت اور شمولیت کو بھی متاثر کیا۔

دستخط کنندگان نے دیگر تشویشناک مشاہدات کا بھی ذکر کیا، جن میں بنیادی سیاسی حقوق مثلا اجتماع کی آزادی پر پابندیاں، ٹیلی کمیونیکیشن بلیک آؤٹ کے باعث انتخابی عمل کی شفافیت میں کمی، نتائج میں بے ضابطگیاں، صحافتی آزادیوں پر قدغن اور پی ٹی آئی ارکان کی بڑے پیمانے پر گرفتاریاں شامل ہیں۔

خط میں لکھا گیا کہ اس معاملے میں دولتِ مشترکہ سیکریٹریٹ کا اولین فرض یہ ہے کہ وہ اپنے رکن ملک کے عوام یعنی پاکستان کے عوام کے جمہوری حقوق کا تحفظ کرے، اُس کے بجائے، سیکریٹریٹ نے جمہوری احتساب کو نقصان پہنچایا اور لاکھوں پاکستانی شہریوں کو ان کے جمہوری حقوق کی خلاف ورزیوں پر داد رسی کا موقع دینے سے انکار کیا، کیونکہ اس نے انتخابی رپورٹ کو 19 ماہ تک روکے رکھا۔

خط نے دولتِ مشترکہ سیکرٹریٹ سے درج ذیل اقدامات کرنے پر زور دیا اور کہا کہ رپورٹ کی اشاعت میں 19 ماہ کی تاخیر کی آزادانہ تحقیقات کرائی جائیں، مبصر رپورٹس کو مقررہ مدت میں خودکار طور پر شائع کرنے کی پالیسی اپنائی جائے۔

مزید کہا گیا کہ اس مسئلے کو دولتِ مشترکہ وزارتی ایکشن گروپ کو بھیجا جائے، دولتِ مشترکہ سربراہان حکومت کے اجلاس کے ایجنڈے میں شامل کیا جائے اور پاکستانی عوام سے اس ’اہم موقع پر ناکامی‘ پر غیر مشروط معافی مانگی جائے۔

ستمبر میں پی ٹی آئی نے سی او جی سے یہ رپورٹ جاری کرنے کا مطالبہ کیا تھا، پاکستان تحریک انصاف کا دعویٰ تھا کہ رپورٹ ‘منظم دھاندلی، ادارہ جاتی جانبداری اور پی ٹی آئی اور اس کے سربراہ عمران خان کو نشانہ بنانے کی دانستہ کوششوں‘ کو بے نقاب کرتی ہے۔

تاہم، 14 ستمبر کو جاری اپنے بیان میں کامن ویلتھ آبزرور نے کہا تھا کہ ان کے علم میں ہے کہ عام انتخابات 2024 پر ان کی رپورٹ کا ایک ورژن آن لائن گردش کر رہا ہے، لیکن بطور پالیسی ہم لیک شدہ دستاویزات پر تبصرہ نہیں کرتے۔

سی او جی کے بیان میں کہا گیا تھا کہ یہ بات پہلے بھی بتائی گئی تھی کہ پاکستانی حکومت اور الیکشن کمیشن پہلے ہی یہ رپورٹ وصول کرچکے ہیں، مکمل رپورٹ، دیگر کئی کامن ویلتھ آبزرور رپورٹس کے ساتھ رواں ماہ کے آخر میں شائع کر دی جائے گی۔

 

جدید تر اس سے پرانی