اسلام آباد ہائیکورٹ کی جسٹس ثمن کو چیف جسٹس کیخلاف شکایت پر نوٹس لینے کے بعد ہٹا دیا گیا

 ایڈووکیٹ ایمان مزاری نے سپریم جوڈیشل کونسل میں بھی درخواست دائر کر دی ہے۔
—فائل فوٹو: اسلام آباد ہائیکورٹ/ ویب سائٹ

اسلام آباد (آئی آر کے نیوز): جسٹس ثمن رفعت امتیاز کی جانب سے وکیل ایمان مزاری کی اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس سرفراز ڈوگر کے خلاف دائر شکایت پر نوٹس لینے کے بعد عدالت کے انتظامی عملے نے اُنہیں ہراسگی کی شکایات سننے کے اختیارات سے محروم کر دیا۔

تفصیلات کے مطابق ایمان مزاری نے اس سے قبل اسلام آباد ہائی کورٹ کی اینٹی ہراسمنٹ کمیٹی سے رجوع کیا تھا، اور ساتھ ہی چیف جسٹس سرفراز ڈوگر کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں بھی ایک ریفرنس دائر کیا تھا۔

اُن کی شکایت پر کارروائی کرتے ہوئے جسٹس ثمن رفعت امتیاز نے، بطور ’مجاز اتھارٹی‘ نہ صرف شکایت کو سنا بلکہ اپنے رفقا ججز سے مشاورت کے بعد ایک انکوائری کمیٹی بھی تشکیل دے دی تھی۔

اُن کے دفتر سے جاری ایک سرکلر میں کہا گیا کہ خواتین کو کام کی جگہ پر ہراسگی سے تحفظ فراہم کرنے کے ایکٹ 2010 کے تحت بطور مجاز اتھارٹی، جسٹس سردار اعجاز اسحٰق خان، جسٹس ارباب محمد طاہر اور جسٹس امتیاز پر مشتمل ایک انکوائری کمیٹی تشکیل دی گئی ہے، جو اسلام آباد ہائیکورٹ کے ججز کے خلاف ہراسگی کی شکایات کی تحقیقات کرے گی۔

ایمان مزاری-حاضر نے سپریم جوڈیشل کونسل میں بھی درخواست دائر کی ہے۔

تاہم، عدالت کے انتظامی عملے نے تیزی سے اُنہیں مجاز اتھارٹی کے طور پر ڈی نوٹیفائی کردیا اور ان کی جگہ جسٹس انعام امین منہاس کو تعینات کردیا۔

عدالتی ریکارڈ کے مطابق 2019 میں بھی ایک مشابہ کمیٹی تشکیل دی گئی تھی، جس میں ممبر انسپیکشن ٹیم (ایم آئی ٹی)، ڈپٹی اور اسسٹنٹ رجسٹرار شامل تھے، تاکہ ہراسگی کے الزامات کی تحقیقات کی جاسکیں۔

اسلام آباد ہائی کورٹ کے ایک سینئر افسر نے البتہ دعویٰ کیا کہ یہ ایکٹ ججز پر لاگو نہیں ہوتا، کیوں کہ اُن پر صرف آئین کے آرٹیکل 209 کے تحت ہی کارروائی کی جاسکتی ہے۔

جسٹس ثمن رفعت امتیاز کو ڈی نوٹیفائی کرنے کی ایک اور وجہ یہ بھی بیان کی گئی کہ بطور مجاز اتھارٹی وہ خود انکوائری کمیٹی کا حصہ نہیں بن سکتیں، ایکٹ کی دفعہ 4 کی ذیلی شق 4 کے مطابق انکوائری کمیٹی اپنی رپورٹ اور سفارشات انکوائری کے آغاز کے 30 دن کے اندر مجاز اتھارٹی کو پیش کرے گی۔

گزشتہ ہفتے ایمان مزاری اور چیف جسٹس ڈوگر کے درمیان ایک مقدمے کی سماعت کے دوران تلخ کلامی ہوئی تھی، اس موقع پر جسٹس ڈوگر نے ایمان مزاری کو توہینِ عدالت کی وارننگ دی تھی اور مبینہ طور پر ایسے ریمارکس دیے تھے کہ وہ اُنہیں ’قابو میں کر لیں گے‘۔

ایمان مزاری نے مؤقف اختیار کیا کہ وہ صرف اپنا پیشہ ورانہ فرض ادا کر رہی ہیں اور توہینِ عدالت کی کارروائی کا سامنا کرنے کے لیے تیار ہیں۔

دوسری جانب، نیشنل سائبر کرائم انویسٹی گیشن ایجنسی (این سی سی آئی اے) نے ایمان مزاری اور ان کے شوہر ہادی علی چٹھہ کے خلاف متنازع ٹوئٹس کیس میں سینئر سول جج عباس شاہ کی عدالت میں چالان جمع کرا دیا ہے۔

عدالت نے ملزمان کو نوٹسز جاری کرتے ہوئے ہدایت کی ہے کہ آئندہ سماعت، جو 17 ستمبر کو مقرر ہے، پر اُنہیں چالان کی نقول فراہم کی جائیں۔

این سی سی آئی اے نے اُن کے خلاف سائبر کرائم قوانین کے تحت مقدمہ درج کیا تھا، جس میں مؤقف اختیار کیا گیا کہ اُن کے متنازع ٹوئٹس آن لائن کنٹینٹ ریگولیشنز کی خلاف ورزی ہیں اور یہ معاشرے میں بے چینی کو ہوا دے سکتے ہیں۔

جدید تر اس سے پرانی