برطانوی پارلیمنٹ نے بھارت اور پاکستان کے درمیان مسئلہ کشمیر پر ایٹمی جنگ کا خدشہ ظاہر کردیا

 Women walk before a curfew in Srinagar on August 4, 2020. - A curfew has been imposed across Indian Kashmir just two days before the first anniversary of New Delhi's abolition of the restive region's semi-autonomy, officials said late August 3, citing intelligence reports of looming protests. (Photo by TAUSEEF MUSTAFA / AFP)

لندن (آئی آر کے نیوز): برطانوی پارلیمنٹ نے بھارت اور پاکستان کے درمیان مسئلہ کشمیر پر ایٹمی جنگ کا خدشہ ظاہر کرتے ہوئے از سر نو سفارتی روابط اور بات چیت کرنے کی اپیل کی ہے، اور انسانی حقوق سے متعلق خدشات کو اجاگر کرتے ہوئے اور برطانوی حکومت پر زور دیا ہے کہ وہ خطے میں دیرینہ کشیدگیوں کو حل کرنے کے لیے مزید فعال اور متوازن کردار ادا کرے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق یہ بات ہاؤس آف کامنز کی فارن افیئرز کمیٹی کی جانب سے شائع ہونے والی ایک رپورٹ میں کہی گئی ہے، جو برطانیہ کی جنوبی ایشیا سے متعلق حکمت عملی کے بارے میں ایک وسیع تحقیق کا حصہ ہے۔

قانون سازوں نے اگست 2019 کے بعد مقبوضہ کشمیر میں بگڑتی ہوئی صورتحال پر تشویش کا اظہار کیا، جب بھارتی حکومت نے آئین کے آرٹیکل 370 کے تحت خطے کی خصوصی آئینی حیثیت ختم کر دی تھی۔

رپورٹ میں فوجی موجودگی میں اضافے، شہری آزادیوں پر پابندیوں، صحافتی آزادی پر قدغنوں اور بلاجواز گرفتاریوں کا حوالہ دیا گیا ہے, رپورٹ کے مطابق خطے میں جمہوری حقوق میں نمایاں کمی واقع ہوئی ہے۔

برطانوی پارلیمنٹ کی خارجہ امور کمیٹی نے آزاد جموں و کشمیر اور گلگت بلتستان میں حکمرانی کا بھی جائزہ لیا، تاہم ان علاقوں کی صورت حال مقبوضہ کشمیر سے مختلف ہے۔

رپورٹ میں جمہوری پابندیوں اور مکمل آئینی نمائندگی کی کمی کے حوالے سے جاری خدشات کا ذکر کیا گیا ہے، کمیٹی نے برطانوی حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ لائن آف کنٹرول کے دونوں طرف انسانی حقوق اور سیاسی حالات کی نگرانی جاری رکھے۔

سیاسی جماعتوں کی پارلیمانی کمیٹی نے برطانوی حکومت سے کہا ہے کہ وہ نئی دہلی اور اسلام آباد دونوں کے ساتھ اپنے سفارتی ذرائع اور تاریخی روابط کا زیادہ بھرپور استعمال کرے، تاکہ بات چیت کی حوصلہ افزائی کی جا سکے۔

رپورٹ میں برطانیہ کی اس پوزیشن کو دہرایا گیا ہے کہ کشمیر کا مسئلہ بھارت اور پاکستان کے درمیان دوطرفہ طور پر حل ہونا چاہیے، لیکن اس کے ساتھ یہ بھی زور دیا گیا کہ یہ برطانیہ کو انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر خدشات ظاہر کرنے سے نہیں روکتا۔

پارلیمنٹیرینز نے فارن، کامن ویلتھ اور ڈیولپمنٹ آفس (ایف سی ڈی او) پر زور دیا کہ وہ دونوں ممالک پر دباؤ ڈالے، تاکہ بین الاقوامی نگرانوں بشمول برطانوی پارلیمنٹیرینز اور سفارت کاروں کو متنازع علاقے کے دونوں طرف جانے کی زیادہ رسائی دی جائے۔

کمیٹی نے یہ بھی سفارش کی کہ برطانیہ ایک متوازن حکمت عملی اپنائے، دونوں حکومتوں کے ساتھ برابر تعلقات استوار کرے, اور کسی قسم کی جانبداری کا تاثر پیدا نہ ہونے دے، ساتھ ہی اپنی سفارت کاری کو جمہوریت، قانون کی حکمرانی، اور انسانی حقوق کے احترام جیسی برطانوی اقدار پر مبنی رکھے۔

رپورٹ میں مشورہ دیا گیا ہے کہ برطانیہ میں موجود کشمیری مہاجرین کی آرا کو غور سے سننا چاہیے، حکومت کو کمیونٹی کے خدشات کا خیال رکھنے کی ترغیب دینی چاہیے، امن اور مفاہمت کو فروغ دینے کے لیے اپنا اثر و رسوخ استعمال کرنا چاہیے۔

بھارت اور پاکستان: 2020 کی دہائی کے لیے برطانیہ کی خارجہ پالیسی کی حکمت عملی‘ کے عنوان سے شائع ہونے والی یہ رپورٹ برطانوی خارجہ پالیسی کی ترجیحات کے وسیع جائزے کا حصہ ہے۔

یہ جنوبی ایشیا کے کچھ حصوں میں بڑھتے ہوئے مستبدانہ رجحانات اور طویل المدتی علاقائی تنازعات پر عدم کارروائی کے ممکنہ نتائج پر پارلیمنٹ میں بڑھتی ہوئی تشویش کی عکاسی کرتی ہے۔

حساسیت کو تسلیم کرتے ہوئے، کمیٹی نے دلیل دی کہ برطانیہ کشمیر میں بڑھتے ہوئے عدم استحکام کے سامنے غیر فعال نہیں رہ سکتا، کمیٹی نے نتیجہ نکالا کہ محتاط مگر اصولی سفارت کاری، حقوق کی مسلسل نگرانی، اور دونوں طرف تعلقات قائم کرنے کی رضا مندی تعمیری کردار ادا کر سکتی ہے۔

توقع ہے کہ برطانوی حکومت آئندہ چند ماہ میں کمیٹی کی سفارشات کا باضابطہ جواب دے گی۔

دریں اثنا اے پی پی کے مطابق برطانوی پارلیمنٹ کی کمیٹی نے بھارت کے جارحانہ رویے پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ کشمیر کا تنازع ایٹمی جنگ کا باعث بن سکتا ہے، اور خبردار کیا کہ پاکستان کے ساتھ دیرینہ کشمیر تنازع خطے کی سلامتی کے لیے سنگین خطرہ ہے، اور یہ ممکنہ طور پر ایٹمی تصادم میں تبدیل ہو سکتا ہے۔

حال ہی میں جاری کی گئی 42 صفحات پر مشتمل رپورٹ میں جنوبی ایشیا کے دونوں ممالک کے متصادم نقطہ نظر کو اجاگر کیا گیا ہے، جس میں بھارت دوطرفہ مذاکرات کی حمایت کرتا ہے، جب کہ پاکستان اقوام متحدہ کے قراردادوں کے مطابق بین الاقوامی ثالثی کا حامی ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بھارت نے مقبوضہ کشمیر میں ایک مشتبہ واقعے کو پاکستان کے خلاف فوجی کارروائی کے جواز کے طور پر استعمال کیا، یہ ایک ایسا اقدام ہے، جسے رپورٹ میں خطے کے امن کے لیے خطرہ قرار دیا گیا ہے۔

رپورٹ میں بھارت پر تنقید کی گئی کہ وہ اقوام متحدہ کے احکامات کو نظر انداز کر کے کشمیر مسئلے کے حل میں رکاوٹیں پیدا کر رہا ہے۔

 

جدید تر اس سے پرانی