اقوام متحدہ کے لیے فلسطین کے سفیر سلامتی کونسل میں بچوں کی تکالیف بیان کرتے ہوئے ضبط کھو بیٹھے اور رو پڑے۔
قطری نشریاتی ادارے ’الجزیرہ‘ کے مطابق فلسطینی مندوب ریاض منصور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے سامنے جذباتی خطاب کے دوران رو پڑے، اور غزہ میں بچوں کی ’ناقابل برداشت‘ تکلیف کا ذکر کیا۔
https://www.youtube.com/watch?v=D9iRF_q2H5g
دوسری جانب غیر ملکی میڈیا کی رپورٹس میں بتایا گیا ہے کہ مشرق وسطیٰ کے لیے اقوام متحدہ کی خصوصی ایلچی نے سلامتی کونسل کو بتایا ہے کہ غزہ میں رہنے والے فلسطینی ’بقا‘ سے بڑھ کر اپنے مستقبل کے مستحق ہیں۔
مشرق وسطیٰ کے لیے اقوام متحدہ کی خصوصی کوآرڈینیٹر سگرید کاگ نے سلامتی کونسل کو بتایا کہ جب سے غزہ میں جھڑپیں دوبارہ شروع ہوئیں ہیں، وہاں عام شہریوں کی پہلے ہی نہایت خراب حالت مزید تباہی کی جانب جا رہی ہے، یہ صورت حال انسانوں کی پیدا کردہ ہے۔
انہوں نے کہا کہ غزہ کا صحت کا نظام ایک مسلسل فوجی مہم کے ذریعے منظم طریقے سے تباہ کیا جا رہا ہے، موت فلسطینیوں کی ساتھی بن چکی ہے، یہ زندگی ہے نہ امید۔
اب جو امداد آ رہی ہے وہ جہاز ڈوبنے کے بعد دی گئی لائف بوٹ کے برابر ہے، کاگ نے خبردار کیا کہ مشرق وسطیٰ میں پائیدار امن اسرائیل-فلسطین تنازع کے حل کے بغیر ممکن نہیں۔
انہوں نے کہا کہ مقبوضہ مغربی کنارے کی صورتحال بھی خطرناک راہ پر ہے، اور عالمی سطح پر آئندہ ماہ ہونے والی اعلیٰ سطح کی کانفرنس دو ریاستی حل کو زندہ کرنے کے لیے اجتماعی کارروائی کے اہم موقع فراہم کرتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ یہ کانفرنس قبضے کے خاتمے اور دو ریاستی حل کے نفاذ کی جانب ایک ٹھوس راستہ شروع کرے، غزہ کے لوگوں کے بارے میں بات کرتے ہوئے، ہمدردی، یکجہتی اور حمایت کے الفاظ اپنی اصل معنویت کھو چکے ہیں۔
کاگ نے کہا کہ ہمیں لوگوں کے ہلاک یا زخمی ہونے کی تعداد کے عادی نہیں ہونا چاہیے، یہ سب بیٹیاں، مائیں اور چھوٹے بچے ہیں جن کی زندگی برباد ہو چکی ہے، ہر ایک کا ایک نام تھا، ہر ایک کا مستقبل تھا، ہر ایک کے خواب اور آرمان تھے۔