امریکا ایران کے ساتھ جوہری معاہدہ کرنے کے ’بہت قریب‘ ہے: ٹرمپ کا بڑا دعویٰ

 Donald Trump stands in front of American flags.

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا ہے کہ امریکا ایران کے ساتھ جوہری معاہدہ کرنے کے ’بہت قریب‘ ہے، اور تہران نے ’کچھ حد تک‘ شرائط پر اتفاق کر لیا ہے۔

برطانوی خبر رساں ادارے ’رائٹرز‘ کے مطابق امریکی صدر نے کہا کہ ہم ایران کے ساتھ طویل المدتی امن کے لیے بہت سنجیدہ مذاکرات کر رہے ہیں، مشرق وسطیٰ کے دورے میں خلیجی ملک میں موجودگی کے دوران انہوں کہا کہ ہم ایران کے معاملے میں ایک معاہدہ کرنے کے قریب ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ایران کو روکنے کے دو طریقے ہیں، ایک بہت ہی اچھا طریقہ مذاکرات کا ہے، دوسرا تشدد کا ہے، اور میں دوسرے طریقے سے یہ کام نہیں کرنا چاہتا ہوں۔

مذاکرات سے واقف ایک ایرانی ذرائع نے بتایا کہ امریکا کے ساتھ بات چیت میں اب بھی ’خلا‘ کو پر کرنا باقی ہے۔

ایران کے جوہری پروگرام سے متعلق تنازعات کو حل کرنے کے لیے ایرانی اور امریکی مذاکرات کاروں کے درمیان تازہ مذاکرات اتوار کو عمان میں ختم ہوئے، اور مزید مذاکرات کی منصوبہ بندی کی گئی ہے۔

اگرچہ تہران اور واشنگٹن دونوں نے کہا ہے کہ وہ دہائیوں پر محیط جوہری تنازع کو حل کرنے کے لیے سفارت کاری کو ترجیح دیتے ہیں، لیکن وہ کئی ریڈ لائنز پر منقسم ہیں، جنہیں مذاکرات کاروں کو ایک نئے معاہدے تک پہنچنے اور مستقبل کی فوجی کارروائی سے بچنے کے لیے نظر انداز کرنا پڑے گا۔

ایران کے صدر نے منگل کو ٹرمپ کے اس بیان پر رد عمل کا اظہار کیا تھا، جس میں انہوں نے تہران کو مشرق وسطیٰ میں ’سب سے تباہ کن قوت‘ قرار دیا تھا۔

ایرانی صدر مسعود پزشک نے کہا کہ ٹرمپ سوچتے ہیں کہ وہ ہم پر پابندیاں لگا کر دھمکی دے سکتے ہیں، تمام جرائم اور علاقائی عدم استحکام کا سبب وہ (امریکا) خود ہیں،’وہ‘ ایران کے اندر عدم استحکام پیدا کرنا چاہتے ہیں۔

امریکی اہلکاروں نے عوامی سطح طور پر یہ بیان دیا کہ ایران کو یورینیم کی افزودگی روکنی چاہیے، یہ ایک ایسا موقف ہے، جسے ایرانی اہلکاروں نے ’سرخ لکیر‘ قرار دیا ہے، اور کہا ہے کہ یورینیم افزودگی کا حق نہیں چھوڑیں گے، تاہم عوامی استعمال کے لیے اس کی سطح کو کم کرنے کا سوچا جاسکتا ہے۔

ایرانی حکام نے یہ بھی کہا ہے کہ وہ ذخیرہ شدہ زیادہ افزودہ یورینیم کی مقدار کو کم کرنے کے لیے تیار ہیں، یہ یورینیم جو عام طور پر شہری مقاصد (جوہری توانائی کی پیداوار) کے لیے درکار ضرورت سے بڑھ کر افزودہ کیا گیا ہے۔

حکام نے کہا کہ وہ 2015 میں عالمی قوتوں کے ساتھ معاہدے میں طے شدہ مقدار سے کم یورینیم ذخائر کو قبول نہیں کریں گے، ٹرمپ اس معاہدے سے پیچھے ہٹ گئے تھے۔

 

جدید تر اس سے پرانی